وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے
اس سے مراد وہ شخص ہیں جن سے 20 سال کے طویل عرصے سے میری پہچان ہے- میرا اشارہ ڈاکٹر فاروق الزماں کی
جانب ہے-ان سے ملاقات تو ہمارے سگے
بھائی جناب مرحوم صادق احمد نے کروائی تھی
– لیکن دیکھتے دیکھتے یہ پہچان گہرے تعلقات میں بدل گئی-ان 20 سالوں
میں، میں نے ان سے کئی معاملات کئے ،ان
کے ساتھ سفر بھی کیا ،ہم نے کئی مشاعرے ادبی پروگرامس میں ساتھ ساتھ شرکت کی ،مرکز فلاح کی میٹنگوں
میں ،کئی شادیوں میں بھی ساتھ رہے ہیں-ان 20 سالوں
میں انہيں قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا -اس دوران میں نے ان کے کردار کے ہر پہلو
کا جائزہ لیا -ان کے خلوص،ان کا وقار،ان کی سنجیدگی،ان کے خیالات میں ہر جگہ میانہ
روی پائی -گو وہ ایک شعلہ بیان مقرر نہیں،ان کا لہجہ دھیما ہوتا ہے،ان کی تقریر
نصیحت آمیز اور حقائق پر مبنی ہوتی ہے-انہيں ڈاکٹریٹ کا اعزاز ملا ،ان کا عجز و
انکسار بڑھا،عمر کے ساتھ ساتھ گہرے مطالعہ کی بنا پر ان کی معلومات میں اضافہ
ہوا،متا نت سنجیدگی میں بھی اضافہ ہوا- میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ، آج کے
انحطاط پزیر دور میں ان جیسے کردار کے لوگ لونگ الائچی کی طرح عنقا ہوتے جا رہے
میں-
انصاف تو یہ ہوتا کے ڈاکٹر فاروق الزماں تعلیم کے شعبہ سے
جڑے ہوتے ،قوم کا بہت فائدہ ہوتا-انہوں نے تجارت کا پیشہ اپنایا-لیکن انہوں نے جو
بھی کیا ایمانداری سے کیا اس کا حق ادا کیا-کئی سال plywoodکا کاروبار کرتے رہے- اور اب کئی سالوں سے کنسٹر کشن میں مٹیریل سپلائے پیشہ سے وابستہ
ہے-ان کے پاس جو disciplineجو planning جو dedication ہے بہت
کم لوگوں میں پایا جاتا ہے-شاید کسی شاعر نے ایسے ہی لوگوں کےتعلق سے کہا ہے
ع ان سے ضرور ملنا سلیقے
کے لوگ ہیں
قرآن سے ثبوت ملتا
ہے کے "پاکیزہ مردوں کے لئے پاکیزہ عورتیں ہیں"-ڈاکٹر صاحب اور
ان کی اہلیہ مرحومہ عائشہ دونوں ماشااللہ
نجیب الطرفین خاندان سے ہیں-ڈاکٹر صاحب کے والد ڈاکٹر مقصود عالم بحیثیت ڈاکٹر میڈکل کے پیشے سے وابستہ ہیں –رکنی بہار مدرسہ بورڈ میں ممبر رہے میں-ان کے نانا
کے تعلق سے قصے سنے ہیں ،ہندوستان سے لے کر موجودہ بنگلہ دیش تک ان کے معتقدین کا
سلسلہ قائم تھا-ڈاکڑ صاحب کے سسر محترم پروفیسر ظفر حبیب کئی کتابوں کے مصنف ہیں-
ع وہ گھر بھی کوئی
گھر ہے جہاں لڑکیاں نہ ہو
ڈاکٹر فاروق الزماں
صاحب نے جس وقت وطن مالوف سےحجرت کی
تھی شفق گود میں ہوا کرتی تھی-پھر یکے بعد
دیگرے صدف،تسکین ،برزین کی پیدائش ہوئی- غزل
کا جومطلع وطن میں لکھا گیا تھا مقطع
نیرول میں آ کر لکھا گیا-تمام بچوں میں
دونوں ماں باپ کے جینس،DNA آئے
ہیں-سبھی بے حد ذہین واقع ہوئی ہیں-debate ہو یا program me comparing ،sport ہو یا singing competition - سبھی نے ڈھیر سارے میڈلس جیتے
ہیں-اسکول کی مانیٹرس رہی ہیں-بڑے بڑے events میں
سکول و کالج کو represent کیا ہے-اور یہ تمام activities پردے کی
حدود کو قائم رکھتے ہوئےکی ہے-
رات کی جھیل میں کنکر سا کوئی پھینک گیا
دائرے درد کے بننے لگے تنہائی میں
وطن سے ہجرت کے بعد
ڈاکٹر صاحب نے نیرول میں اپنے خوابوں کا
آشیانہ تعمیر کیا--ڈاکٹر صاحب
نےگھاٹکوپر میں plywood ہول
سیل کی شاپ کھول رکھی تھی-بھابھی عائشہ بھی
بہترین dress designer ہوا
کرتی تھیں-بچا کچھا وقت سوشل کاموں میں صرف کیا کرتی تھیں-
ع قسمت تو دیکھئے
ٹوٹی کہاں کمند
یکم جون 2009کے دن
بھابھی ایک ناگہانی
حادثہ میں ،ڈاکٹر صاحب سے بچھڑ گیئں-لٹے پٹے اپنے کارواں کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نیرول لوٹے- ابھی برزین
(سب سے چھوٹی کا )سنیر کےجی میں اڈمیشن ہوا ہی تھا-لیکن میں ڈاکٹر صاحب کے حوصلے کو داد
دیتا ہوں کہ اس سانحہ کے دن کو کبھی بھی منحوس
نہیں کہا-کئی دن تک ان کے کمپیوٹر اور موبائل کے اسکرین پر مرحومہ بھابھی کی تصویر
display میں رہی بس- جب دل کے آئنہ میں
تصویر یار ہو،اور آہنی ارادے ہو ں تو کسی
سہارے کی ضروت کہا ں ہوتی ہے-انہیں یہ سوچ کر تسکین ہوگئی
بھلا کسی نے کبھی رنگ وبو کو پکڑا ہے
شفق کو قید میں رکھا ہوا کو بند کیا
ہرایک لمحہ گریزاں ہے،جیسے دشمن ہے
نہ تم ملوگی نہ میں ،ہم بھی دونوں لمحے میں
وہ جاکے جو واپس کبھی نہیں آتے
انہوں نے حال کی تاریکی میں بچوں کے روشن و تابناک مستقبل
کو دیکھ لیا-اکیلے اپنے اور بھابھی کے خوابوں کی تعبیر میں جٹ گئے-مجھے یقین ہے
انہیں کسی مایوس شاعر کی طرح کبھی یہ نہیں کہنا پڑیگا
ع میں زمانے میں
چند خواب چھوڑ آیا تھا