مسافر ہوں یاروں
کچھ اس طرح سے مجھے حادثات مہیب ملتے ہیں
اتفاقا" کسے روراہے پر ،جیسے بچھڑے رقیب ملتے ہیں
غلطی ہویئ رقیب کی بجائے اوصاف عثمانی لکھنا چاہئے
تھا-درمیانہ قد ،مجھے 22 سال کی عمر کے بعد ملے اس لئے قد تبدیل تو نہیں ہوا،کچھڑی
بال جن میں اب جگہ جگہ چاندی چمکنے لگی ہے-آنکھوں پر قیمتی چشمہ لگائے رکھتے
ہے-موبائیل برسوں سے ایک ہی استمعال میں ہیں، اسکرین پر خراشیں پڑ چکی ہیں،شاید تحفہ میں گرل فرینڈ یا بھابی سے
ملا ہے-ورنہ اتنی بد ہیت چیز کا استعمال سمجھ میں
نہیں آتا-کپڑے ماشا اللہ برانڈڈ پہنتے ہیں-معروف عثمانی، ادب دان خاندان
میں جنم لیا ہے-والد اردوں داں ،استاد ،شايد
اسی مناسبت سے نام اوصاف رکھا گیا-گاوں میں اردوں اسکول سے تعلیم کی شروعات
کی-ممبیئ آکر مکمل کی –اسی لیے اردو سے والہانہ محبت ہے-اپنی اہلیہ سے بھی اتنی
محبت ہے کیوں کے اپنے لیے انتخاب ہی اردو ٹیچر کا کیا ہے-
منزل کی ہے
تلاش تو دامن جنوں کا تھام
اپنے کریر کی شروعات fab tech سے کی –کمپنی کو اپنے خون جگر سے
سینچا-کمپنی چھتنا آور درخت بن چکی ہے-اب
بھی اسی مستعدی سے کمپنی کی ذلفیں سنوارنے
میں مصروف ہے-پہلے بس ،ٹرین سے سفر کیا کرتے تھے –خال خال نیرول میں لظر آجاتے
تھے-اب ماشااللہ پلین سے سفر کرتے ہے-کبھی چندی گڑھ تو کبھی
دہلی،کلکتہ،احمدآباد،نیپال ،بھوپال،پونا، سارا ہندوستان جناب کے لیئے گھر آنگن ہو
گیا ہے-سمجھ میں نہیں آتا انہیں کب فرصت مل
پاتی ہے،کیونکہ سفر سے لوٹتے ہی
اپنی کار ڈرائیور کے ساتھ کمپنی ہیڈ آفس یا پھر عمر گام فیکٹری کی دوڑ لگا آتے ہے-
ہمیں پتہ ہے ہوا کا مزاج رکھتے ہو
ان کی زندگی میں ایک چوکور ہے –بھابھی،عظمان،امان اور علینہ
جو ان کی زندگی کا مرکز ہے- سبھی سے انہیں
والہانہ قربت ہے لیکن بقول اشتیاق بھایئ "پتیلے میں لگی کھرچن بہت لزیز ہوتی
ہے " کے مصداق امان میاں سے خاص انسیت ہے-
اس کے علاوہ بھی
انہوں نے زندگی کو کیئ خانوں میں باٹ رکھا
ہے-باقاعدگی سے احمد بھایئ کے باہر کرسیاں بچھا کر دوستوں کی محفلیں سجانا،یاروں
کی بارات کو کبھی محمد علی روڈ ،کبھی بھیونڈی دھابہ،کبھی ماتھیران ،کبھی ڈومبیولی
دھابہ لیجاکر چٹ پٹے کھانوں سے انہہیں
متعارف کرانا-سوشل میڈیا پر ویڈیو کلپس،شاعری،جوکس share کرنا-سوشل کاموں میں شامل ہونا-اس کے علاوہ بقول
منصور جٹھام ،مہاشے "گھریلو اتی کرمن" کے لیئے بھی جانے جاتے ہے-لیکن کامیاب نہیں ہونے
پاتے-اشتیاق بھایئ سے پنگا نہیں لے سکتے-منصور جٹھام اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے
ہے-حامد بھایئ تھوڑے دب جاتے ہے کیونکے ان کی جوانی بانکپن میں گزری ہے-ہریش
قربانی کا بکرا ،وہ بھی اب چکنا گھڑا ہوگیا ہے ہنس کر ٹال دیتا ہے-ایک بار افسر امام نے گھر ناشتے
کی دعوت دے کر اپنے پیر پر کلہاڑی مار لی-اب تو یہ عالم ہے جس راستہ سے اوصاف
گزرتے ہے ان کی پرچھایئ بھی نہیں دکھایئ دیتی-
ایک چہرے پہ کیئ
چہرے لگا لیتے ہیں لوگ
اوصاف میں تمہیں
بہروپیہ نہیں کہونگا-آج دوستی ،وفا،پیار ،محبت
لونگ الایچی کی طرح عنقا ہوتے جارہے ہیں-ہنسی لوگوں کے لبوں سے غائب ہورہی
ہے-بلاوجہ ہر جگہ ٹنشن کا ماحول ہے -تم اپنی مصروفیت کے باوجود لوگوں کے دکھ درد
کم کرکے دوستوں کی زندگیوں میں اندر دھنش کے رنگ بکھیرنے کی کوشش میں لگے ہو-میں
تمہاری ان کوششوں کی قدر کرتا ہوں –بقول شاعر
جہاںرہینگا وہاں روشنی لٹاینگا
کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا