मंगलवार, 8 अक्टूबर 2013

lagta nahiayar hai dil mera ujde dayar mein

   م یف حسین جنے کسی زمانے میں مادھوری فدا حسین کے نام سے بھی جانا جاتا تھا ایک ز مانے میں ان کو ہندوستان بھر میں عزت کی جاتی تھی کہا جاتا ہے انکی گھوڑوں کی تصویریں بھی  کروڑوں کے داموں میں بکجاتی تھی اور اب بھی بکتی ہیں ان کے بنیں فلمی بینر آرٹ کا شوق رکھنے والوں کے لئے اہمیت رکھتیں ہیں جبکے اچھا سے اچھا بہترین نسل کا گہوڈا بھی لاکھوں میں دستیاب ہوتا ہے لیکن پھر ہوا کے ان کی بنایی بھارت ماتا کی برہنہ تصویر نے کچھ ہلوگوں کے جذبات کو ٹھیس پوھنچائی بی جے پی اور و اچ پی کو ایک شوشہ ہاتھ لگا انکی احمدآباد میں گیلری کو تہس نہس کر دیا گیا ان کے خلاف سپریم کورٹ میں  کیس دایر کیا گیا ان کی شوھرت ان کے لئے زحمت بن گی 
ایک ایسا وقت آیا کے 
برے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے 

         پھر وہ بنجاروں کی طرح  دیش بادیش پھرے کبھی پیرس تو کبھی لندن اور کی  سال  دبئی میں مقیم رہے مرنے سے کچھ ارسا پہلے دوحہ قطر کی شہریت بھی وہاں کے شیخ کی جانب سے انہیں پیش کی گی جو ان کی جانب سے قبول کر لی گی 
      حسین صاھب کو اپنی حیات میں اس بات کا قلق رہا کے ہندوستان میں ان کی قدر نہیں کی گی  بہادر شاہ ظفر کی طرح ملک   بدر ہونا پڑا خیر ظفر کی  طرح ذلیل تو نہ ہونا پڑا آج بھی آپ کی تصویریں اربوں میں بکتی ہیں دنیا بھر چاہنے والے موجود ہیں لیکن ملک کی  جدآیے نے انے ملول کرکے رکھ دیا تھا دبئی میں سمندر کنا رے اربوں کا ولا دنیا کی مہنگین سے مہنگین کاریں بگٹی بنٹلے فراری ان کے پاس تھی شیخ کے خاندان سے قریبی تعلقات تھے  سات ستارآ  ہوٹلوں میں کھانا کھاتیں تھے  
       مرنے سے پہلے اس بات کا حسین صاھب کو افسوس  تھا ہندوستان کی طرح بغیر چپلوں کے وہ دبئی میں گھوم نہیں سکتے تھے چونکے ننگین پیر وہاں گھومنا تہذیب کے خلاف ہے حسین صاھب کو دھابے کی کٹنگ چاے یاد آتی تھی اپنے دوست گایتوندے کی یاد ستاتی تھی جن سے ممبئی میں وہ گھنٹوں باتیں کرتے تھے  
      افسوس انسان کی ہر خواہش زندگی میں پوری نہیں ہوتی حسسیں صاھب بھی صرف ایک بار وطن لوٹنے کی خواہش رکھتیں تھے جو پوری نہ ہو سک
   دو گز زمین بھی نہ ملی کوے یار میں 

कोई टिप्पणी नहीं:

एक टिप्पणी भेजें