मंगलवार, 27 जनवरी 2015

Yadon ki Barat



                                      
                                یادوں کی بارات
بات کی بات خرافات کی خرافات بیری کا کانٹا سوا اٹھرا ہاتھ
 اسوقت کا ذکر ہے ہم اسکول میں پڑھا کرتے تھے-استادوں سے سیکھا کرتے لیکن یاد نہیں رکھ پاتے-جب امتحانی پرچہ سوالوں کے ساتھ سامنے آتا تو ہاتھ پیر پھول جاتے آنکھوں میں اندھیری چھا جاتی اور سوالوں کے من مانی جواب لکھے جاتے-ٹیچرس پرچوں میں سے چنیدہ نمونے ہمیں سناتے –
سوال: خون میں 2 قسم کے ذرات پایے جاتے ہیں    -     جواب: سلیمانی اور رحمانی
سوال: شعر کی تشریح کیجے: دل کا اجڑنا سہل سہی بسنا سہل نہیں ظالم
                         بستی بسنا کھیل نہیں ہے بستی بستے بستی ہے
جواب: دنیا میں زبردست زلزلہ رونما ہوا ادھر کے لوگ ادھر ہو گیے اور ادھر کے ادھر اور اس کے بعد ہر کویئ اپنے کام پر لگ گیا-ہمیں تو ہندوستان یورپ اور یورپ ہندوستان ميں تبدیل ہوتا دکھایئ دیا لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر نظر آیئ کے  اتنے بڑے سانہحہ کے بعد ہر کویئ اپنے اپنے کام پر کس طرح لگ گیا-
بات نکلے گی تو دور تلک جایے گی
30  سال پہلے ہمارے ایک دوست کی شادی ہویئ تھی وہ بھی طویل عشق کے بعد-ہوا یہ کے کچھ عرصے بعد ان کی بیگم روٹھ کر میکے چلی گیئ-ہمارے دوست کچھ روز تک تو انتطار کرتے رہے –تنگ آکر ایک روز ایک مختصر خط کے زریعے اپنی موت کی اطلاع اپنے میکہ روانہ کر دی-بیوی، ساس ،سسر روتے پیٹتے داماد کے گھر پہنچے-تو انہیں خوش حال پایا-کہانی کا انجام فلموں کی طرح ہوا –اب بھی دونوں میاں بیوی حیات ہیں اور اس واقعہ کو یاد کر لطف اندوز ہوتے ہیں-
واقعہ ہمارے ایک دوست کا ہے –وہ اس زمانے میں مہاراشٹرا سرکار کے ایک ماہ نامے کی ادارت کیا کرتے تھے-ان کا آفس سچاوالیکے 7 وے منزل پر تھا اور آٹھویں منزل پر ان کے والد جو   language officerتھے بیٹھا کرتے تھے-ہماری شامت اعمال کےہم ان کے والد کے آفس میں جا پہنچے-کیونکہ دونوں کا سر نییم ایک تھا-ہم نے ان سے کہا مجھے محی الدین سے ملنا ہے-کہنے لگے بیٹھیے " صحیح نام بولیے معین الدین" ہم نے کہا "معین الدین جینابڑے "انہوں نے کہا معین الدین 7 وے فلور پر ملینگے-ان کے فرزند سے ملاقات کی ان سے والد کے اس واقعہ کا ذکر کیا ہمارے دوست کہنے لگے "بڈھا ایسا ہی ہے" آج ہمارے دوست ڈاکٹر (پ،ایچ،ڈی) ہوچکے ہیں اور دہلی میں پروفیسر ہے-
یوں تصور پہ برستی ہے پرانی یادیں
   ڈاکٹر واصف احمد جو رشتہ میں ہمارے بڑے بھایئ ہوتے ہیں ان کی شادی کے رقعہ چھپوانے تھے-اس زمانے میں اردو پریس بہت کم ہوتے تھے-ہمارے ایک دوست نور محمد جن کا پریس تھا -کرلا پہاڑی پر رہا کرتے تھے-میں ان کا پتہ بھول گیا ،پہلا موقعہ تھا ان کے گھر جانے کا-راستے میں ایک راہ گیر سے پوچھا " صاحب نور محمد کہاں رہتے ہیں " کہنے لگے کون سے نور محمد کمپاونڈر،بینڈ ماسٹر یا پھر ختنہ کرنے والے خلیفہ، ذہن میں سوچا بینڈ ماسٹر  ڈاکٹر صاحب کی شادی میں بینڈ بجانے کے لیے دستیاب ہے-ڈاکٹر صاحب کی اولاد نرینہ ہویئ تو ختنہ کروانے والے صاحب کو بلایا جا سکتا ہے-میں نے کہا کمپاونڈر اور میرا جواب صحیح تھا-
ڈاکٹر واصف کی نیئ نیئ شادی ہویئ تھی میں ہمارے چھوٹے جاوید،ڈاکٹر صاحب ان کی اہلیہ نیلوفر ، کے ساتھ گھومنے کے لیے جوہو چوپاٹی گیے تھے-پتہ چلا ایک لڑکی نے خودکشی کی کوشش کی تھی اسے ڈوبنے سے بچایا جا رہا تھا ہم سب بھی تماشہ دیکھنے دوڑے-بھابھی نیلوفر رکی رہی –لوٹنے پر انہوں نے قصہ دریافت کیا-تینوں کی نفسیات سے اچھی طرح واقف تھی انہوں نے بڑا خوبصورت تجزیہ کیا- کہنے لگی "ڈاکٹر صاحب اس لیے دوڑے تھے کے مریضہ کو پانی سے نکالنے کے بعد شاید اسے مدد کی ضرورت پڑ جایے-راغب بھایئ اس لیے دوڑے کے لڑکی کا جھاڑ پھونک کر کویئ علاج ہوجایے-اور جاوید بھایئ جان یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کے لڑکی کتنی خوبصورت ہے-
       1992کی بات ہے میں راما پٹرو میں جاب کرتا تھا-ہمارے ایک سپروایزر تھے راماناتھن-ساوتھ سے تعلق رکھتے تھے مراٹھی اتنی اچھی نہیں سمجھ پاتے-ایکدن ایک مہاراشٹرین لڑکا کنٹرول روم میں آیا اسے چوٹ لگی تھی  ،رامناتھن اس لڑکے سے پوچھا "کیا ہوا" اس نے جواب دیا "وہاں کھڑی تھی میں پھسل گیا" انہوں نے کہا "وہاں کھڑی تھی تو تو کیوں پھسلا؟" بار بار وہ یہی پوچھتے رہے ،کھڑی مراٹھی میں پتھری کو کہتے ہے–ہم نے بہت انجوایے کیا-

कोई टिप्पणी नहीं:

एक टिप्पणी भेजें