मंगलवार, 20 जनवरी 2015

doston ki maherbani chahiye



                                       دوستوں کی مہربانی چاہیے                            

45  سال ایک طویل وقفہ ہوتا ہے-زمانہ بدل گیا،کیئ      قریبی دوست رشتہ دار ہم سے بچھڑ گیے-لیکن وقت گزرنے کے ساتھ سید مخدوم علی اور میرے تعلقات پہلے سے مظبوط سے مظبوط تر ہوتے گیے-ہم دونوں نے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل،قریب" کچھ وقفے کی دوری سے ہماری شادیاں ہویئ-دونوں کو دو اولادیں ہویئ-ساتھ ساتھ رٹایئر ہویے-ہم دونوں ہم خیال واقع ہویے ہیں-شدت پسندگی سے ہم دونوں کو نفرت ہے-اعتدال پسندگی دونوں کو پسند ہے-ہم دونوں کی اولادیں ماشا اللہ پوسٹ گریجوٹ ہیں-ہم دونوںکو حج کی سعادت بھی نصیب ہوگیئ ہے-اسکے باوجود ہم دونوں  اس بات پر  متفق ہے کے اللہ نے ہمیں ہماری صلاحیتوں سے زیادہ نوازا ہے-
    تم یاد آیے ساتھ تمہارے گزرے زمانے یاد آیے
جلگاوں اینگلو اردو کی وہ ٹوٹی پھوٹی عمارت،بوسیدہ بنچس،فاروق سر،منورسر،اسماعیل سر،زیبالنسا  میم کی وہ جافشانی-1967-1971 کا وہ وقفہ جب ہم ہایئ اسکول میں تعلیم پارہے تھے-ریسس کے دوران گولی بار ٹیکری پر چڑھایئ-مرحوم رفیق جو بعد میں انسپکٹر بن گیے تھے ،عبدل عزیز عرف ابو کی شرارتیں،مخدوم علی کی سنجیدگی-اس زمانے میں نہ جیب میں پیسے ہوتے نہ اس بات کا شعور تھا کہ ساتھ میں لڑکیاں بھی ہم کلاس تھی-ہم سب جوان ہو رہے تھے ،مسیں بھیگ رہی تھی،آوازوں میں بھاری پن آرہا تھا لیکن جزبات میں بچپنہ سوار تھا-غربت کی پرچھایوں نے ہم سب پر سایہ کیے ہوا تھا-نہ ریڈیو نہ ٹیوی نہ تفریح کے کپھ اور سامان تھے-مہینے میں ایک فلم دیکھ کر ہم اپنے آپ کو شہنشاہ تصور کیے لیتے تھے-5 پیسے کے چنے کھا کر شاہی دستر خوان کا مزا لوٹتے-اسی دوران شروع ہویئ تھی میری اور مخدوم کی دوستی-ایک کلاس میں ایک بنچ پر بیٹھنا-وہ یادیں وہ باتیں آج کی طرح کیمرے،فلم میں قید تو نہیں ہیں لیکن ان یادوں کی خشبو اب تک باقی ہے-
بھلا کسی نے کبھی رنگ وبو کو پکڑا ہے
شفق کو قید میں رکھا ہوا کو بند کیا؟
مخدوم سے میری رشتہ داری بھی ہے-اس لیے چھٹی کے روز مخدوم کے گھر چلا جاتا  یا وہ میرے گھر آجاتا-اس کے گھر جاتا تو ماموں ممانی سے ملاقات ہوجاتی-اس کے نانا حکیم ہوا کرتے اور ان کی باتیں بھی حکیمانہ ہوا کرتی بہت کچھ سیکھنے کو ملتا-ہم دونوں کے حالات بھی ایک جیسے تھے میں ماں کے سایہ سے محروم،وہ بھی باپ کی شفقت سے ناآشنا-کیا عجیب دھن سوار تھی ہم پر ہمارے ہم کلاس ہم عمر بچے پتنگیں،کنچے ،لڑایئ جھگڑے اور بے ہودہ باتوں میں مشغول ہوتےہم پڑھایئ میں-حیدری تھیٹر گھر کے پچھواڑے تھاجہاں ناچ گانا ہوتا-دن میں کیئ بار طوایفوں کی گلی سے گزرتے شام میں گھر تک ناچ،گھنگروں اور ڈھولک کی صدایں کان میں پڑتی لیکن اس طرف کبھی دھیان ہی نہیں جاتا-
مخدوم اور میرے حالات میں مماثلت تھی-غربت تھی ساتھ ساتھ جدوجہد بھی تھی،خودداری بھی ہم دونوں میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی-مجھے یاد ہے شاید ہی ہم نے کسی کی سفارش قبول کی ہو-زہن میں کچا پن تھا لیکن کردار کی پختگی تھی-مخدوم علی کو نانا کی قربت ملی تھی جو حکیم تھے-ماموں جو اکاونٹنٹ   واقع  ہویے تھے ان  کی نصیحتیں،قدم قدم  پرمشورےاور نیک اور ایمان دارانہ زندگی گزارنے کی تلقین-یہی باتیں مجھےہمارے والد سے وراثت میں مجھے  ملی، جو تمام زندگی ہمارے لیے مشعل راہ بنی رہی-جدوجہد کا خبط ہمیں آگے بڑھاتا رہا-ندی  میں طغیانی توتھی ہم بہاو کے مخالف تیز دھارے کو کاٹتے آگے بڑھتے رہے-ہماری آرزویں خواہشیں چھوٹی چھوٹی تھی-شاید ہم نے خواب بھی دیکھے ہو نگے ،لیکن ہماری نظر حال کی پریشانیون اور ان کو حل کرنے پر رہی اس لیے ہم اپنے دوسرے ساتھیوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب رہے-دوسری وجہ یہ بھی تھی کےہم نے اپنے آپ پر زیادہ بھروسہ کیا کبھی بھی کسی اور پر تکیہ نہ کیا-
     SSC کرنے بعد1971 میں ممبی چلا آیا-اس دوران مخدوم علی نےM.J Collageجلگاوں سے      Bachelor of commerce کی تعلیم مکمل کی،پاچورہ میں ٹیچری بھی کی،تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ  پوسٹ گویجویشن کر لیا-وطن کی قربت،گھر کی محبت سید مخدوم کی پیر کی بیڑیاں نہ بن پایئ-اسے کچھ کرنے کی دھن سوار تھی-MPSC کا امتحان پاس کے اس نے ممبی چھلانگ لگایئ-6 یا 7 برس کی جدایئ کے بعد ہم یکجا ہویے،کچھ روز وہ میرے گھر بھی رہا-دونوں مصروف تھے لیکن کسی طرح ملاقات کے لیے وقت چرا لیا کرتے-میرے B.Sc فاینل کا رژلٹ، ممبی یونیورسٹی میں میں نے  مخدوم کے ساتھ دیکھا تھا-اسی نے میرا نمبر تلاش کیا تھا-میں مایوس  ہو چکا تھا-اسی نے مجھ honors میں پاس ہونے کی خوش خبری سنایئ تھی-ان دنوں ہم ساتھ ساتھ ایک پروگرام میں شرکت کی تھی اور اس پروگرام کو فلم ڈوزن نے اپنے کیمرے میں قید کر لیا تھا-ان دنوں فلم شروع ہونے سے پہلے فلم ڈوزن کی ڈکیومنٹری دکھانا ہر تھیٹر میں لازمی تھا-ہماری ڈکیومنٹری جلگاوں شہر کی ایک تھیٹر میں ایک غیر معروف فلم کے ساتھ دکھایئ گیئ-لوگوں نے مجھے اور مخدوم کو دیکھنے کے لیے فلم بھی کڑوی گولی کی طرح سہلی-چند لمحوں کے لیے ہم دونوں دوستوں نے اپنے آپ کو ہیرو تصور کر لیا-
ہمارے دوست سید شیر علی اور محمد رفیق سب انسپکٹر کے عہدہ پر مختلف پولس اسٹشنوں پر ممبیئ  میں تعنیت رہے-اب وہ بدقسمتی  سے مرحوم ہوچکے ہیں اللہ انہیں جنت نصیب کرے-جب بھی ملتے ایک دھما چوکڑی مچتی،اسکول اور ماضی کی یادوں سے ہماری محفل مہکنے لگ جاتی-اندراگاندھی کی موت پر جب سارا ہندوستان سلگ رہا تھا اتفاق سے مخدوم اور میں نے رفیق کے فلاٹ پر دو روز گزارے تھے-ہم نے ماضی کو کریدہ تھا،کچھ زخم تازہ کیے تھے-ابو،زیب النسا میم،نجانے کس کس موظوع پر باتیں ہویئ تھی-اس واقع کے کچھ عرصے بعد رفیق ایک دردناک حادثہ سے دوچار ہوکر 3 سال قرب ناک زندگی گزار  کر مالک حقیقی سے جا ملا-سید شیر علی نے بھی اس واقعے کے 4 سال بعد ہم کو دغا دے دی-موت کا ایک دن معین ہے-ان دونوں دوستوں کی یادیں،ان کی باتیں ہمارے زہنوں میں تاحیات محفوظ رہے گی-دوقریبی دوستوں کی جدایئ مجھے اور مخدوم کو اور قریب لے آیئ-ویسے بھی ماشااللہ ہم نے ہماری دوستی کی بنیادیں خلوص ،مروت پر رکھی ہے اس درخت کو بھایئ چارگی کے پانی سے سینچا ہے-جو انشااللہ کبھی سوکھ نہیں سکتا-
    ہم دونوں میں کچھ اور بھی چیزیں قربت کی وجہ بنی ہے-سادگی،محمد رفیع کے پرانے گیتوں کے ہم دونوں شیدایئ ہیں-اردو زبان اور شاعری سے محبت،اردو کو دم توڑتے دیکھتے ہم دونوں کو کوفت ہوتی ہے-چند کوششیں ہیں جو ہم کر سکتے ہیں معمولی ہے جیسے پانی کے دھارے کو مٹی کا بند باند کر روکنا-جناب مخدوم نے اپنے بچوں کو بچپن میں چند خوبصورت اشعار یاد کرا دیے تھے –جب بھی کویئ مہمان گھر آتا ان کے سامنےپیش کرنے کے لیے کہتا-میرے سامنے جب بچے پڑھتے میں بہت خوش ہوتا انہیں  انعام سے نوازتا-مخدوم کا آفس کا ماحول مہاراشٹیرن لوگوں پر مشتمل تھا-لیکن وہاں بھی اس نے اپنی کوششوں سے ایک اردو ماحول تیار کر لیا تھا-بھلے ہی وہ غزل کو گجل کہتے تھےلیکن  اچھے شعر سننے کے  خواہش مند تھے اور اچھے شعر سن کر داد بھی دیتے تھے-
       مخدوم علی کے جدوجہد کی ایک مثال یاسمین بھابھی سے شادی کے بعد انہیں گریجویشن کرنے میں مدد –اور بھابھی نے بھی اور حت الامکان کوشش کر اپنے خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا-
         مخدوم علی کے گھر جاکر خاندیش کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں-بھابھی کے خاندیشی کھانے۔سیما کا خاندیش کی انار کلی کی ہو بہو نکل،عمران کا خلوص-پورا خاندان غریب رشتہ داروں خصوصا" بیواۂوں  کی خدمت میں دل و جان سے جٹا ہے-اللہ قبول کرلے-الحمدوللہ   دو قریبی بچیوں کی شادی کرواکے زوجین نے جنت میں اپنی جگہ رثرو کروالی ہے-حج کی سعادت سے اللہ نے انہیں نواز دیا ہے-اللہ سے دعا گو ہوں کے اس کیی نوازشیں پورے خاندان پر برستی رہے –آمین ثم آمین-

   

कोई टिप्पणी नहीं:

एक टिप्पणी भेजें