शनिवार, 31 जनवरी 2015

Naveed Anjum



                                                   نوید انجم
پرانے وقتوں میں شادی میں سہرا پڑھنے کا رواج تھا-شاعروں کودولہے اور باراتیوں کی جانب سے انعام و اکرام سے نوازا جاتا-زمانہ بدل گیا ہے ساتھ ساتھ لوگوں کے مزاج بھی بدل گیے ہیں-ایک زمانہ تھا دولہا سہرے سے لدا پھدا ہوتا-مجھے جلگاوں کے مشہور شاعر چاوٹ جلگاوی کا  کسی شادی میں پڑھا صرف ایک شعر یاد رہ گیا ہے-
کون کہتا ہے دولہے کے سر پہ سہرا ہے
سر پہ مکھنا ہے، مکھنے پہ سہرا  ہے
    آج نوید انجم کے لیے سہرا تو نہیں پڑھ سکتا کیونکے میں شاعر نہیں، ایک مختصر سا خاکہ پیش کر رہا ہوں-نوید کی پیدایش پر ارنڈول سے روانہ کیا ٹیلی گرام میں نے ہی receive کیا تھا-ہمارے والد (ان کے دادا) کو پڑھ کر سنایا تو وہ بہت خوش ہویے تھے ڈھیروں دعایئں دی تھی-ٹیلی گرام پر یاد آیا جلگاوں میں  ہمارےمحلے میں، اس زمانے میں کسی کے گھر ٹیلی گرام آتا تو پڑھنے کے لیے ہمارے والد  کے پاس لایا جاتا کیونکہ وہ انگلش کی ٹیوشن پڑھاتے تھے-اس زمانے میں ٹیلی گرام ،موت یا بیماری کی خبر دینے کے لیے روانہ کیا جاتا تھا-ٹیلی گرام ملتے ہی لوگ مظمون دیکھے بغیر رونا پیٹنا شروع کر دیتے-ایک دن محلے میں کسی کے گھر ٹیلی گرام آیاتمام خاندان والے روتے پیٹتے والد صاحب کے پاس پہنچے-ٹیلی گرام پڑھ کر پتا چلا احمدآباد میں زلزلے کے ہلکے جھٹکے لگے تھے-وہ   earthquake کا مطلب نہیں سمجھ سکے تھے-
             نوید انجم کا بچپن مجھے یاد ہے-میری شادی کے وقت اس کی عمر یہی کویئ 2 سال ہوگی-اس کی شگفتہ آنٹی کو انی کہا کرتا-ڈاکٹر واصف اس کے والد، ہمارے والد کو خطوط لکھا کرتے،ان میں نوید بھی آڑی ترچھی لکیریں کھینچ دیا کرتا-اس لکھاوٹ کو والد صاحب ڈی کوڈ کر لیتے اور ہمیں اس کا مطلب سمجھاتے-
             نویدکے نکاح میں شریک نہ ہو پایا افسوس رہیگا-نکاح میں انہہوں نے کلمے ٹھیک سے ادا کیے یا نہیں؟اس پر مجھے بچپن کا ایک واقعہ یاد آگیا-کسی قریبی رشتے دار کیے بچے کی شادی تھی-والد صاحب کے پاس آکر کہنے لگا "خالوں جان زبان نہیں الٹتی کلمے یاد کرا دو- تا کے نکاح کے دوران کویئ غلطی نہ ہو جایے"-والد صاحب نے کہا "بہت جلد آیے ہو  میاں پر تھوک سے کاغذ نہیں چپکتا "-ابھی تک میں نے نکاح کی تفصیل نہیں سنی ہے-نوید نے سہرا باندھا تھا یا نہیں؟گھوڑے پر سواری کی تھی یا نہیں؟گھوڑے کے پیر کے نیچے انڈہ رکھا گیا تھا یا نہیں؟ساس سسر نے 1000 روپیے کی بیل ڈالی تھی یا نہیں؟اسلام پورے کا براس بینڈ ،ناچتے براتیوں نے جاوید کی کمی ضرور محصوص کی ہونگی-
             نوید انجم ہمارے خاندان کا اکلوتا وارث،11 بہنوں کا ایک بھایئ،ماں باپ کی آنکھوں کا تارا،چچی چچاوں کا دلارا،خالا،نانا ،نانی کا پیارا-ماشا اللہ حلیہ کیا بیان کروں،نکلتا قد،کھڑی ناک،آنکھیں جو کسی تعجب خیز حیرت ناک واقعہ سن کر اور بھی پھیل جاتی ہے-
          اس کے بچپن کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے-ان کے والد ڈاکٹر واصف کی کرجن PHC پر پوسٹنگ تھی،نوید انجم اپنے پاپا کو ہنومان کی تصویر دکھا کر کہنے لگے یہ اللہ میاں ہے-ہمارے والد نوید کے دادا اس واقعہ کو سن کر بہت محظوظ ہویے تھے-
   نوید انجم نے ممبیئ یونیورسٹی کی مشہور رضوی کالج سے MBA مکمل کرنے کے بعد تیزی سے ترقی کی ہے-ماشااللہ میں نے انہیں اس دوران بھی دیکھا جب وہ انجمن اسلام (سبحانی ہاسٹل ) رہایش پزیر تھے-ناز نعم سے پلا نوید ہاسٹل کے ٹوٹے پھوٹے روم میں رہا کرتے تھے ،مجھے ان کی یہ جدوجہد کرنا بہت اچھا لگا حالانکے ان کے ممی پپا بہت پریشان رہا کرتے تھے-نوید کی اس جدوجہد پر مجھے کسی شاعر کا یہ شعر  ہو بہو صادق آتا نظر آتا ہے-
منزل کی ہو تلاش تو دامن جنوں کا تھام
راہوں کے رنگ دیکھ نہ تلوں کے خار دیکھ
      پھر تھوڑا عرصہ انہوں نے ممبیئ میں جاب کیا اس کے بعد جو رسی تڑواکے بھاگے تو دبیئ میں دم لیا-آجکل دبیئ میں جاب کرتے ہیں اور رہتے ہیں شارجہ میں ،اتنے وثوق سے میں اس لیے کہے سکتا ہوں کے وہاں بھی میں نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا وہاں بھی ان سے مل آیا ہوں-والد صاحب تو گجرات حکومت کے کھونٹے سے ایسے بندھے کے رٹایر ہو کر چھوٹے-الحمدوللہ نوید کی ترقی کی رفتار یہی رہی تو اگلی  ملاقات پر نوید کی دعوت پر انشااللہ دنیا کے پہلے 7 اسٹار ہوٹل میں لنچ کرینگے-نصیب سے نوید کو ساس سسر بھی بہت خوش مزاج ملے ہیں-اور زارا کے کیا کہنے-اللہ سے دعاگو ہوں کے نوید انجم بے انتہا ترقی کرے،پھولے پھلے،بہت جلد کرکٹ کی ٹیم تیار کرے-میری آخری نصیحت پپا کی ہر بات پر عمل کریں لیکن ہم دو ہمارے دو پر با لکل نہیں-
یہ خاکہ 9 فروری 2009 نوید کی شادی پر لکھا گیا تھا
31جنوری -2015
      اللہ نے نوید انجم کو دو پھول سے ننہالوں سے نواز دیا ہے-ماشااللہ اپنی محنت اور سب کی دعاوں سے ترقی کر UNILEVER DUBAI  میں  Manager کی پوزیشن حاصل کر لی ہے-اتفاق سے میں بھی اگلے ماہ نوید سے 7 ستارا ہوٹل میں حسب وعدہ دعوت وصول کرنے پہنچ رہا ہوں  -مجھے یقین ہے نوید انجم اپنا وعدہ  نہیں بھولے ہونگے

मंगलवार, 27 जनवरी 2015

Yadon ki Barat



                                      
                                یادوں کی بارات
بات کی بات خرافات کی خرافات بیری کا کانٹا سوا اٹھرا ہاتھ
 اسوقت کا ذکر ہے ہم اسکول میں پڑھا کرتے تھے-استادوں سے سیکھا کرتے لیکن یاد نہیں رکھ پاتے-جب امتحانی پرچہ سوالوں کے ساتھ سامنے آتا تو ہاتھ پیر پھول جاتے آنکھوں میں اندھیری چھا جاتی اور سوالوں کے من مانی جواب لکھے جاتے-ٹیچرس پرچوں میں سے چنیدہ نمونے ہمیں سناتے –
سوال: خون میں 2 قسم کے ذرات پایے جاتے ہیں    -     جواب: سلیمانی اور رحمانی
سوال: شعر کی تشریح کیجے: دل کا اجڑنا سہل سہی بسنا سہل نہیں ظالم
                         بستی بسنا کھیل نہیں ہے بستی بستے بستی ہے
جواب: دنیا میں زبردست زلزلہ رونما ہوا ادھر کے لوگ ادھر ہو گیے اور ادھر کے ادھر اور اس کے بعد ہر کویئ اپنے کام پر لگ گیا-ہمیں تو ہندوستان یورپ اور یورپ ہندوستان ميں تبدیل ہوتا دکھایئ دیا لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر نظر آیئ کے  اتنے بڑے سانہحہ کے بعد ہر کویئ اپنے اپنے کام پر کس طرح لگ گیا-
بات نکلے گی تو دور تلک جایے گی
30  سال پہلے ہمارے ایک دوست کی شادی ہویئ تھی وہ بھی طویل عشق کے بعد-ہوا یہ کے کچھ عرصے بعد ان کی بیگم روٹھ کر میکے چلی گیئ-ہمارے دوست کچھ روز تک تو انتطار کرتے رہے –تنگ آکر ایک روز ایک مختصر خط کے زریعے اپنی موت کی اطلاع اپنے میکہ روانہ کر دی-بیوی، ساس ،سسر روتے پیٹتے داماد کے گھر پہنچے-تو انہیں خوش حال پایا-کہانی کا انجام فلموں کی طرح ہوا –اب بھی دونوں میاں بیوی حیات ہیں اور اس واقعہ کو یاد کر لطف اندوز ہوتے ہیں-
واقعہ ہمارے ایک دوست کا ہے –وہ اس زمانے میں مہاراشٹرا سرکار کے ایک ماہ نامے کی ادارت کیا کرتے تھے-ان کا آفس سچاوالیکے 7 وے منزل پر تھا اور آٹھویں منزل پر ان کے والد جو   language officerتھے بیٹھا کرتے تھے-ہماری شامت اعمال کےہم ان کے والد کے آفس میں جا پہنچے-کیونکہ دونوں کا سر نییم ایک تھا-ہم نے ان سے کہا مجھے محی الدین سے ملنا ہے-کہنے لگے بیٹھیے " صحیح نام بولیے معین الدین" ہم نے کہا "معین الدین جینابڑے "انہوں نے کہا معین الدین 7 وے فلور پر ملینگے-ان کے فرزند سے ملاقات کی ان سے والد کے اس واقعہ کا ذکر کیا ہمارے دوست کہنے لگے "بڈھا ایسا ہی ہے" آج ہمارے دوست ڈاکٹر (پ،ایچ،ڈی) ہوچکے ہیں اور دہلی میں پروفیسر ہے-
یوں تصور پہ برستی ہے پرانی یادیں
   ڈاکٹر واصف احمد جو رشتہ میں ہمارے بڑے بھایئ ہوتے ہیں ان کی شادی کے رقعہ چھپوانے تھے-اس زمانے میں اردو پریس بہت کم ہوتے تھے-ہمارے ایک دوست نور محمد جن کا پریس تھا -کرلا پہاڑی پر رہا کرتے تھے-میں ان کا پتہ بھول گیا ،پہلا موقعہ تھا ان کے گھر جانے کا-راستے میں ایک راہ گیر سے پوچھا " صاحب نور محمد کہاں رہتے ہیں " کہنے لگے کون سے نور محمد کمپاونڈر،بینڈ ماسٹر یا پھر ختنہ کرنے والے خلیفہ، ذہن میں سوچا بینڈ ماسٹر  ڈاکٹر صاحب کی شادی میں بینڈ بجانے کے لیے دستیاب ہے-ڈاکٹر صاحب کی اولاد نرینہ ہویئ تو ختنہ کروانے والے صاحب کو بلایا جا سکتا ہے-میں نے کہا کمپاونڈر اور میرا جواب صحیح تھا-
ڈاکٹر واصف کی نیئ نیئ شادی ہویئ تھی میں ہمارے چھوٹے جاوید،ڈاکٹر صاحب ان کی اہلیہ نیلوفر ، کے ساتھ گھومنے کے لیے جوہو چوپاٹی گیے تھے-پتہ چلا ایک لڑکی نے خودکشی کی کوشش کی تھی اسے ڈوبنے سے بچایا جا رہا تھا ہم سب بھی تماشہ دیکھنے دوڑے-بھابھی نیلوفر رکی رہی –لوٹنے پر انہوں نے قصہ دریافت کیا-تینوں کی نفسیات سے اچھی طرح واقف تھی انہوں نے بڑا خوبصورت تجزیہ کیا- کہنے لگی "ڈاکٹر صاحب اس لیے دوڑے تھے کے مریضہ کو پانی سے نکالنے کے بعد شاید اسے مدد کی ضرورت پڑ جایے-راغب بھایئ اس لیے دوڑے کے لڑکی کا جھاڑ پھونک کر کویئ علاج ہوجایے-اور جاوید بھایئ جان یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کے لڑکی کتنی خوبصورت ہے-
       1992کی بات ہے میں راما پٹرو میں جاب کرتا تھا-ہمارے ایک سپروایزر تھے راماناتھن-ساوتھ سے تعلق رکھتے تھے مراٹھی اتنی اچھی نہیں سمجھ پاتے-ایکدن ایک مہاراشٹرین لڑکا کنٹرول روم میں آیا اسے چوٹ لگی تھی  ،رامناتھن اس لڑکے سے پوچھا "کیا ہوا" اس نے جواب دیا "وہاں کھڑی تھی میں پھسل گیا" انہوں نے کہا "وہاں کھڑی تھی تو تو کیوں پھسلا؟" بار بار وہ یہی پوچھتے رہے ،کھڑی مراٹھی میں پتھری کو کہتے ہے–ہم نے بہت انجوایے کیا-

मंगलवार, 20 जनवरी 2015

doston ki maherbani chahiye



                                       دوستوں کی مہربانی چاہیے                            

45  سال ایک طویل وقفہ ہوتا ہے-زمانہ بدل گیا،کیئ      قریبی دوست رشتہ دار ہم سے بچھڑ گیے-لیکن وقت گزرنے کے ساتھ سید مخدوم علی اور میرے تعلقات پہلے سے مظبوط سے مظبوط تر ہوتے گیے-ہم دونوں نے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل،قریب" کچھ وقفے کی دوری سے ہماری شادیاں ہویئ-دونوں کو دو اولادیں ہویئ-ساتھ ساتھ رٹایئر ہویے-ہم دونوں ہم خیال واقع ہویے ہیں-شدت پسندگی سے ہم دونوں کو نفرت ہے-اعتدال پسندگی دونوں کو پسند ہے-ہم دونوں کی اولادیں ماشا اللہ پوسٹ گریجوٹ ہیں-ہم دونوںکو حج کی سعادت بھی نصیب ہوگیئ ہے-اسکے باوجود ہم دونوں  اس بات پر  متفق ہے کے اللہ نے ہمیں ہماری صلاحیتوں سے زیادہ نوازا ہے-
    تم یاد آیے ساتھ تمہارے گزرے زمانے یاد آیے
جلگاوں اینگلو اردو کی وہ ٹوٹی پھوٹی عمارت،بوسیدہ بنچس،فاروق سر،منورسر،اسماعیل سر،زیبالنسا  میم کی وہ جافشانی-1967-1971 کا وہ وقفہ جب ہم ہایئ اسکول میں تعلیم پارہے تھے-ریسس کے دوران گولی بار ٹیکری پر چڑھایئ-مرحوم رفیق جو بعد میں انسپکٹر بن گیے تھے ،عبدل عزیز عرف ابو کی شرارتیں،مخدوم علی کی سنجیدگی-اس زمانے میں نہ جیب میں پیسے ہوتے نہ اس بات کا شعور تھا کہ ساتھ میں لڑکیاں بھی ہم کلاس تھی-ہم سب جوان ہو رہے تھے ،مسیں بھیگ رہی تھی،آوازوں میں بھاری پن آرہا تھا لیکن جزبات میں بچپنہ سوار تھا-غربت کی پرچھایوں نے ہم سب پر سایہ کیے ہوا تھا-نہ ریڈیو نہ ٹیوی نہ تفریح کے کپھ اور سامان تھے-مہینے میں ایک فلم دیکھ کر ہم اپنے آپ کو شہنشاہ تصور کیے لیتے تھے-5 پیسے کے چنے کھا کر شاہی دستر خوان کا مزا لوٹتے-اسی دوران شروع ہویئ تھی میری اور مخدوم کی دوستی-ایک کلاس میں ایک بنچ پر بیٹھنا-وہ یادیں وہ باتیں آج کی طرح کیمرے،فلم میں قید تو نہیں ہیں لیکن ان یادوں کی خشبو اب تک باقی ہے-
بھلا کسی نے کبھی رنگ وبو کو پکڑا ہے
شفق کو قید میں رکھا ہوا کو بند کیا؟
مخدوم سے میری رشتہ داری بھی ہے-اس لیے چھٹی کے روز مخدوم کے گھر چلا جاتا  یا وہ میرے گھر آجاتا-اس کے گھر جاتا تو ماموں ممانی سے ملاقات ہوجاتی-اس کے نانا حکیم ہوا کرتے اور ان کی باتیں بھی حکیمانہ ہوا کرتی بہت کچھ سیکھنے کو ملتا-ہم دونوں کے حالات بھی ایک جیسے تھے میں ماں کے سایہ سے محروم،وہ بھی باپ کی شفقت سے ناآشنا-کیا عجیب دھن سوار تھی ہم پر ہمارے ہم کلاس ہم عمر بچے پتنگیں،کنچے ،لڑایئ جھگڑے اور بے ہودہ باتوں میں مشغول ہوتےہم پڑھایئ میں-حیدری تھیٹر گھر کے پچھواڑے تھاجہاں ناچ گانا ہوتا-دن میں کیئ بار طوایفوں کی گلی سے گزرتے شام میں گھر تک ناچ،گھنگروں اور ڈھولک کی صدایں کان میں پڑتی لیکن اس طرف کبھی دھیان ہی نہیں جاتا-
مخدوم اور میرے حالات میں مماثلت تھی-غربت تھی ساتھ ساتھ جدوجہد بھی تھی،خودداری بھی ہم دونوں میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی-مجھے یاد ہے شاید ہی ہم نے کسی کی سفارش قبول کی ہو-زہن میں کچا پن تھا لیکن کردار کی پختگی تھی-مخدوم علی کو نانا کی قربت ملی تھی جو حکیم تھے-ماموں جو اکاونٹنٹ   واقع  ہویے تھے ان  کی نصیحتیں،قدم قدم  پرمشورےاور نیک اور ایمان دارانہ زندگی گزارنے کی تلقین-یہی باتیں مجھےہمارے والد سے وراثت میں مجھے  ملی، جو تمام زندگی ہمارے لیے مشعل راہ بنی رہی-جدوجہد کا خبط ہمیں آگے بڑھاتا رہا-ندی  میں طغیانی توتھی ہم بہاو کے مخالف تیز دھارے کو کاٹتے آگے بڑھتے رہے-ہماری آرزویں خواہشیں چھوٹی چھوٹی تھی-شاید ہم نے خواب بھی دیکھے ہو نگے ،لیکن ہماری نظر حال کی پریشانیون اور ان کو حل کرنے پر رہی اس لیے ہم اپنے دوسرے ساتھیوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب رہے-دوسری وجہ یہ بھی تھی کےہم نے اپنے آپ پر زیادہ بھروسہ کیا کبھی بھی کسی اور پر تکیہ نہ کیا-
     SSC کرنے بعد1971 میں ممبی چلا آیا-اس دوران مخدوم علی نےM.J Collageجلگاوں سے      Bachelor of commerce کی تعلیم مکمل کی،پاچورہ میں ٹیچری بھی کی،تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ  پوسٹ گویجویشن کر لیا-وطن کی قربت،گھر کی محبت سید مخدوم کی پیر کی بیڑیاں نہ بن پایئ-اسے کچھ کرنے کی دھن سوار تھی-MPSC کا امتحان پاس کے اس نے ممبی چھلانگ لگایئ-6 یا 7 برس کی جدایئ کے بعد ہم یکجا ہویے،کچھ روز وہ میرے گھر بھی رہا-دونوں مصروف تھے لیکن کسی طرح ملاقات کے لیے وقت چرا لیا کرتے-میرے B.Sc فاینل کا رژلٹ، ممبی یونیورسٹی میں میں نے  مخدوم کے ساتھ دیکھا تھا-اسی نے میرا نمبر تلاش کیا تھا-میں مایوس  ہو چکا تھا-اسی نے مجھ honors میں پاس ہونے کی خوش خبری سنایئ تھی-ان دنوں ہم ساتھ ساتھ ایک پروگرام میں شرکت کی تھی اور اس پروگرام کو فلم ڈوزن نے اپنے کیمرے میں قید کر لیا تھا-ان دنوں فلم شروع ہونے سے پہلے فلم ڈوزن کی ڈکیومنٹری دکھانا ہر تھیٹر میں لازمی تھا-ہماری ڈکیومنٹری جلگاوں شہر کی ایک تھیٹر میں ایک غیر معروف فلم کے ساتھ دکھایئ گیئ-لوگوں نے مجھے اور مخدوم کو دیکھنے کے لیے فلم بھی کڑوی گولی کی طرح سہلی-چند لمحوں کے لیے ہم دونوں دوستوں نے اپنے آپ کو ہیرو تصور کر لیا-
ہمارے دوست سید شیر علی اور محمد رفیق سب انسپکٹر کے عہدہ پر مختلف پولس اسٹشنوں پر ممبیئ  میں تعنیت رہے-اب وہ بدقسمتی  سے مرحوم ہوچکے ہیں اللہ انہیں جنت نصیب کرے-جب بھی ملتے ایک دھما چوکڑی مچتی،اسکول اور ماضی کی یادوں سے ہماری محفل مہکنے لگ جاتی-اندراگاندھی کی موت پر جب سارا ہندوستان سلگ رہا تھا اتفاق سے مخدوم اور میں نے رفیق کے فلاٹ پر دو روز گزارے تھے-ہم نے ماضی کو کریدہ تھا،کچھ زخم تازہ کیے تھے-ابو،زیب النسا میم،نجانے کس کس موظوع پر باتیں ہویئ تھی-اس واقع کے کچھ عرصے بعد رفیق ایک دردناک حادثہ سے دوچار ہوکر 3 سال قرب ناک زندگی گزار  کر مالک حقیقی سے جا ملا-سید شیر علی نے بھی اس واقعے کے 4 سال بعد ہم کو دغا دے دی-موت کا ایک دن معین ہے-ان دونوں دوستوں کی یادیں،ان کی باتیں ہمارے زہنوں میں تاحیات محفوظ رہے گی-دوقریبی دوستوں کی جدایئ مجھے اور مخدوم کو اور قریب لے آیئ-ویسے بھی ماشااللہ ہم نے ہماری دوستی کی بنیادیں خلوص ،مروت پر رکھی ہے اس درخت کو بھایئ چارگی کے پانی سے سینچا ہے-جو انشااللہ کبھی سوکھ نہیں سکتا-
    ہم دونوں میں کچھ اور بھی چیزیں قربت کی وجہ بنی ہے-سادگی،محمد رفیع کے پرانے گیتوں کے ہم دونوں شیدایئ ہیں-اردو زبان اور شاعری سے محبت،اردو کو دم توڑتے دیکھتے ہم دونوں کو کوفت ہوتی ہے-چند کوششیں ہیں جو ہم کر سکتے ہیں معمولی ہے جیسے پانی کے دھارے کو مٹی کا بند باند کر روکنا-جناب مخدوم نے اپنے بچوں کو بچپن میں چند خوبصورت اشعار یاد کرا دیے تھے –جب بھی کویئ مہمان گھر آتا ان کے سامنےپیش کرنے کے لیے کہتا-میرے سامنے جب بچے پڑھتے میں بہت خوش ہوتا انہیں  انعام سے نوازتا-مخدوم کا آفس کا ماحول مہاراشٹیرن لوگوں پر مشتمل تھا-لیکن وہاں بھی اس نے اپنی کوششوں سے ایک اردو ماحول تیار کر لیا تھا-بھلے ہی وہ غزل کو گجل کہتے تھےلیکن  اچھے شعر سننے کے  خواہش مند تھے اور اچھے شعر سن کر داد بھی دیتے تھے-
       مخدوم علی کے جدوجہد کی ایک مثال یاسمین بھابھی سے شادی کے بعد انہیں گریجویشن کرنے میں مدد –اور بھابھی نے بھی اور حت الامکان کوشش کر اپنے خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا-
         مخدوم علی کے گھر جاکر خاندیش کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں-بھابھی کے خاندیشی کھانے۔سیما کا خاندیش کی انار کلی کی ہو بہو نکل،عمران کا خلوص-پورا خاندان غریب رشتہ داروں خصوصا" بیواۂوں  کی خدمت میں دل و جان سے جٹا ہے-اللہ قبول کرلے-الحمدوللہ   دو قریبی بچیوں کی شادی کرواکے زوجین نے جنت میں اپنی جگہ رثرو کروالی ہے-حج کی سعادت سے اللہ نے انہیں نواز دیا ہے-اللہ سے دعا گو ہوں کے اس کیی نوازشیں پورے خاندان پر برستی رہے –آمین ثم آمین-

   

गुरुवार, 8 जनवरी 2015

chotu mamun

                                       زین العابدین عرف چھوٹو ماموں
ہمارے بزرگ جناب زین العابدین جو زندگی کی 80 بہاریں دیکھ چکے ہیں –انہیں چھوٹو ماموں کے نام سے بھی جانا جاتا ہے-وہ مجھ سے بزرگ سے زیادہ دوست کی طرح تعلقات رکھنے کے قائل ہیں-حالانکے رشتے میں وہ خسر ہوتے ہیں-اللہ انہیں سلامت رکھے-کہاں جاتا ہے انسان کی پہچان اس کے کردار  سے ہوتی ہے-ماموں جان کی زندگی جدوجہد سے پر رہی- بقول شاعر
     کچھ اس طرح طہ کی ہے ہم نے اپنی منزلیں
              گر  پڑے گر کے اٹھے اٹھ کے چلے
انہوں نے ایمانداری کا دامن کبھی اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑا-بروک بانڈ کی سروس میں اپنے آپ کو تن من دھن سے غرق کر رکھا تھا-شگفتہ سے سنے واقعات سے میں نے  نتیجہ اخز کیا ہوں کے کمپنی کو شہادہ میں  establish کرنے میں ان کا بڑا ہاتھ رہا ہے-بیل گاڑی،جیپ،پیدل سفر کی پریشانیاں برداشت کی اور اپنے پروڈکٹ کو دھڑگاوں جیسے دور دراز علاقے تک پہچانے میں کامیاب ہویے-کردار کے ساتھ ساتھ وہ خوش شکل بھی ہیں-نکلتا قد ،نیلی آنکھیں،دودھ کی طرح شفاف رنگ اور بات چیت میں انہیں شاعری اور ادب پر عبور حاصل ہے- بقول شاعر
وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آیے
ان کا شہادہ کا دوستوں کا سرکل بھی تعلیم یافتہ ،مہذب تھا-نواپور آنے کے بعد انہوں نے اپنے سرکل کو ہمیشہ مس کیا-ڈاکٹر اقبال کے وہ مرید ہے-فلسفہ خودی،عقاب،مومن اقبال کی شاعری میں جو استلاہات استعمال ہویئ ہے میں  نے ان سے سیکھا ہے-یہی وجہ ہے کے وہ مسلم قوم کی گرتی حالت سے حد درجہ ناراض ہے-حدیث قدسی ہے کے مومن نا جھوٹا ہوسکتا ہے نا وعدے کی خلاف ورزی کر سکتا ہے نا امانت میں خیانت کر سکتا ہے-الحمدوللہ ماموں جان نے زندگی سچایئ ،امانت کی پاسداری اور وعدہ  وفایئ میں گزاری-اللہ نے انہیں حج کی سعادت سے نوازا-اور یہی باتیں انہوں نے اپنی اولاد کو سکھایئ-
  ایک صیح حدیث میں آتا ہے ایک روز اللہ کے رسول نے ممبر پر چڑھتے ہویے ہر سیڑھی پر قدم رکھتے ہویے آمین کہا –صحابیوں نے نماز کے بعد اس کی وجہ جاننی چاہی-آپ نے کہا جبریل میرے پاس تشریف لایے تھے اور مجھ سے کہا کے میری ہر بات پر آپ آمین کہے-میں نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا لعنت ہے ایسے شخص پر کہ رمضان کا مہینہ پایے اور روزے نہ رکھے میں نے کہاں آمین-دوسری  سیڑھی پر میں  نے قدم رکھا کہا  انہوں نے کہا لعنت ہو اس شخص پر کسی محفل میں میرا زکر ہو اور وہ مجھ پر درود  نہ بیجھے-آخری سیڑھی پر میں نے قدم رکھا تو انہوں نے کہا لعنت ہو اس شخص پر جس نے اپنے ماں باپ کا بڑھاپا یا اور ان کی خدمت نہ کی میں نے کہا آمین-مبارک ہو آپ تینوں بھایؤں آپ کی اہلیان اور آپ کی اولادوں کو کے آپ سب محترم ماموں میاں کی خدمت میں تن من دھن سے جٹے ہیں-کہا جاتا ہے ایک حدیث کو زندہ کرنے کا ثواب ہزار حدیثوں پر عمل کرنے کا اجر ملتا ہے-آپ لوگوں نے ایک سنت کو زندہ کیا ہے-یقینن آپ لوگ اپنے آپ کو ایک بڑے اجر کا مستحق کر لیا ہے-الحمدوللہ میں اپنے تجربہ سے کہہ سکتا ہوں کے مجھے جو بھی زندگی میں ملا ہے مجھے والد کی دعاوں سے ملا ہے-آپ لوگوں کو انشااللہ  ضرور بے انتہا  اجر ملے گا-