نوید انجم
پرانے وقتوں میں شادی میں سہرا پڑھنے کا رواج تھا-شاعروں
کودولہے اور باراتیوں کی جانب سے انعام و اکرام سے نوازا جاتا-زمانہ بدل گیا ہے
ساتھ ساتھ لوگوں کے مزاج بھی بدل گیے ہیں-ایک زمانہ تھا دولہا سہرے سے لدا پھدا
ہوتا-مجھے جلگاوں کے مشہور شاعر چاوٹ جلگاوی کا
کسی شادی میں پڑھا صرف ایک شعر یاد رہ گیا ہے-
کون کہتا ہے دولہے کے سر پہ سہرا ہے
سر پہ مکھنا ہے، مکھنے پہ سہرا ہے
آج نوید انجم کے
لیے سہرا تو نہیں پڑھ سکتا کیونکے میں شاعر نہیں، ایک مختصر سا خاکہ پیش کر رہا
ہوں-نوید کی پیدایش پر ارنڈول سے روانہ کیا ٹیلی گرام میں نے ہی receive کیا تھا-ہمارے والد (ان کے دادا) کو
پڑھ کر سنایا تو وہ بہت خوش ہویے تھے ڈھیروں دعایئں دی تھی-ٹیلی گرام پر یاد آیا
جلگاوں میں ہمارےمحلے میں، اس زمانے میں کسی
کے گھر ٹیلی گرام آتا تو پڑھنے کے لیے ہمارے والد
کے پاس لایا جاتا کیونکہ وہ انگلش کی ٹیوشن پڑھاتے تھے-اس زمانے میں ٹیلی
گرام ،موت یا بیماری کی خبر دینے کے لیے روانہ کیا جاتا تھا-ٹیلی گرام ملتے ہی لوگ
مظمون دیکھے بغیر رونا پیٹنا شروع کر دیتے-ایک دن محلے میں کسی کے گھر ٹیلی گرام
آیاتمام خاندان والے روتے پیٹتے والد صاحب کے پاس پہنچے-ٹیلی گرام پڑھ کر پتا چلا
احمدآباد میں زلزلے کے ہلکے جھٹکے لگے تھے-وہ
earthquake کا
مطلب نہیں سمجھ سکے تھے-
نوید انجم کا بچپن مجھے یاد ہے-میری شادی
کے وقت اس کی عمر یہی کویئ 2 سال ہوگی-اس کی شگفتہ آنٹی کو انی کہا کرتا-ڈاکٹر
واصف اس کے والد، ہمارے والد کو خطوط لکھا کرتے،ان میں نوید بھی آڑی ترچھی لکیریں
کھینچ دیا کرتا-اس لکھاوٹ کو والد صاحب ڈی کوڈ کر لیتے اور ہمیں اس کا مطلب
سمجھاتے-
نویدکے نکاح میں شریک نہ ہو پایا افسوس
رہیگا-نکاح میں انہہوں نے کلمے ٹھیک سے ادا کیے یا نہیں؟اس پر مجھے بچپن کا ایک
واقعہ یاد آگیا-کسی قریبی رشتے دار کیے بچے کی شادی تھی-والد صاحب کے پاس آکر کہنے
لگا "خالوں جان زبان نہیں الٹتی کلمے یاد کرا دو- تا کے نکاح کے دوران کویئ
غلطی نہ ہو جایے"-والد صاحب نے کہا "بہت جلد آیے ہو میاں پر تھوک سے کاغذ نہیں چپکتا "-ابھی تک
میں نے نکاح کی تفصیل نہیں سنی ہے-نوید نے سہرا باندھا تھا یا نہیں؟گھوڑے پر سواری
کی تھی یا نہیں؟گھوڑے کے پیر کے نیچے انڈہ رکھا گیا تھا یا نہیں؟ساس سسر نے 1000 روپیے
کی بیل ڈالی تھی یا نہیں؟اسلام پورے کا براس بینڈ ،ناچتے براتیوں نے جاوید کی کمی
ضرور محصوص کی ہونگی-
نوید انجم ہمارے خاندان کا اکلوتا وارث،11
بہنوں کا ایک بھایئ،ماں باپ کی آنکھوں کا تارا،چچی چچاوں کا دلارا،خالا،نانا ،نانی
کا پیارا-ماشا اللہ حلیہ کیا بیان کروں،نکلتا قد،کھڑی ناک،آنکھیں جو کسی تعجب خیز
حیرت ناک واقعہ سن کر اور بھی پھیل جاتی ہے-
اس کے بچپن
کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے-ان کے والد ڈاکٹر واصف کی کرجن PHC پر پوسٹنگ تھی،نوید انجم اپنے پاپا
کو ہنومان کی تصویر دکھا کر کہنے لگے یہ اللہ میاں ہے-ہمارے والد نوید کے دادا اس
واقعہ کو سن کر بہت محظوظ ہویے تھے-
نوید انجم نے
ممبیئ یونیورسٹی کی مشہور رضوی کالج سے MBA مکمل
کرنے کے بعد تیزی سے ترقی کی ہے-ماشااللہ میں نے انہیں اس دوران بھی دیکھا جب وہ
انجمن اسلام (سبحانی ہاسٹل ) رہایش پزیر تھے-ناز نعم سے پلا نوید ہاسٹل کے ٹوٹے
پھوٹے روم میں رہا کرتے تھے ،مجھے ان کی یہ جدوجہد کرنا بہت اچھا لگا حالانکے ان
کے ممی پپا بہت پریشان رہا کرتے تھے-نوید کی اس جدوجہد پر مجھے کسی شاعر کا یہ
شعر ہو بہو صادق آتا نظر آتا ہے-
منزل کی ہو تلاش تو دامن جنوں کا تھام
راہوں کے رنگ دیکھ نہ تلوں کے خار دیکھ
پھر تھوڑا
عرصہ انہوں نے ممبیئ میں جاب کیا اس کے بعد جو رسی تڑواکے بھاگے تو دبیئ میں دم
لیا-آجکل دبیئ میں جاب کرتے ہیں اور رہتے ہیں شارجہ میں ،اتنے وثوق سے میں اس لیے
کہے سکتا ہوں کے وہاں بھی میں نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا وہاں بھی ان سے مل آیا
ہوں-والد صاحب تو گجرات حکومت کے کھونٹے سے ایسے بندھے کے رٹایر ہو کر
چھوٹے-الحمدوللہ نوید کی ترقی کی رفتار یہی رہی تو اگلی ملاقات پر نوید کی دعوت پر انشااللہ دنیا کے
پہلے 7 اسٹار ہوٹل میں لنچ کرینگے-نصیب سے نوید کو ساس سسر بھی بہت خوش مزاج ملے
ہیں-اور زارا کے کیا کہنے-اللہ سے دعاگو ہوں کے نوید انجم بے انتہا ترقی کرے،پھولے
پھلے،بہت جلد کرکٹ کی ٹیم تیار کرے-میری آخری نصیحت پپا کی ہر بات پر عمل کریں
لیکن ہم دو ہمارے دو پر با لکل نہیں-
یہ خاکہ 9 فروری 2009 نوید کی شادی پر لکھا گیا تھا
31جنوری -2015
اللہ نے نوید
انجم کو دو پھول سے ننہالوں سے نواز دیا ہے-ماشااللہ اپنی محنت اور سب کی دعاوں سے
ترقی کر UNILEVER DUBAI میں Manager کی پوزیشن حاصل کر لی ہے-اتفاق سے
میں بھی اگلے ماہ نوید سے 7 ستارا ہوٹل میں حسب وعدہ دعوت وصول کرنے پہنچ رہا ہوں -مجھے یقین ہے نوید انجم اپنا وعدہ نہیں بھولے ہونگے