اقبال عرف پا شو
تم سے بچھڑے 4 سال کا طویل وقت دیکھتے دیکھتے گزر گیا- ثنا کی شادی میں تم سے آخری ملاقات
کا شرف حاصل ہوا تھا-اور خوش قسمتی سے وہ لمحات کیمرے میں قید ہو چکے
ہیں-تمہاری باتیں تمہاری یادیں تو ہمیشہ یاد
آتی رہے گیں- بقول شاعر
ع تمہاری یاد کے
جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کس بہانے تمہیں
یاد کرنے لگتے ہیں
دادابھایئ جو، اب
مرحوم ہو چکے ہیں –تمہارے پاس پہنچ چکے ہے-تمہارے نام کی تشریح کویت سے لکھے ایک
خط میں مزاحیہ انداز میں کچھ اس انداز میں کی تھی-پا+شو –تم نے سب سے زیادہ لطف
لیا تھا-تم تھے ہی ایسے-
تمہارا اصل نام
اقبال تمہارے والد نے ڈاکٹر اقبال سے متا ثر ہو کر رکھا تھا-اقبال یعنی خوش
نصیب،اعلا مرتبے والا-تم تو تمہارے نام کی طرح تھے-
1971 میں جس وقت
میں ایس ایس سی کا امتحان پاس کر جلگاوں سے ممبئ آیا تھا،اجنبی شہر اجنبی لوگوں کے
بیچ تم مجھے صحرہ میں نحلستان کی طرح محسوس ہوئے-تم تمہارہ سارہ خاندان میرے لئے
ایک اطمنان ایک سہارہ بن گے-اماں کا وہ پیار،بہن شہناز کی محبت،اخلاق،اشفاق کی شفقتیں،بھابھی کی
عنایتیں،مہربانیاں-تکیہ واڑ کے گھر میں کسی بھی وقت پہنچ جاتا اور کئ دنوں کی
بھوک اور بے مزہ کھانوں کو بھول کر اماں
بھابھی کے ہاتھ سے بنے کھانوں سے ذہنی سکون میسر آتا-
گریجوشن کے بعدمیرا پہلا جاب بھی تو مجھے Rallis India میں تمہاری معرفت ملا تھا-
SSC میں تم میتھس میں فیل ہو گیے تھے –لیکن
وہ تمہاری جافشانی تھی کے ابا کے پاس میتھس سیکھنے کرلا سے چمبور FCI Colony آیا کرتے تھے-قلاشی کا زمانہ
تھا کبھی کبھی کرلا سے چمبور کا طویل
سفر پیدل بھی تمہہیں طہ کرنا پڑتا-اپنی محنت اور ابا کی رہنمائ میں SSC کا امتحان بھی تم نے پاس کر لیا-ابا کو تم نے
استاد کا درجہ دیا تھا اور تمام عمر
نبھایا بھی-جاب ملنے اور مصروفیت کے باوجود بھی گاہے گاہے ابا سے ملاقات کے
لیے تم آتے رہتے-کبھی طویل وقفے کی تمہاری غیر حاظری ہوجاتی تو ابا مجھ سے کہہ کر
تمہیں بلوا لیتے-
تمہاری sense of hum our کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا-تمہیں
یاد ہوگا ہم نے جدائ بسنت ٹاکیز میں ساتھ ساتھ دیکھی تھی-ایک سین میں ایک چھوٹا
بچہ 5 موٹے موٹے غنڈوں کی پٹائ کرتا ہے-تمہاری رگ ظرافت پھڑک اٹھی سیٹ سے اٹھ کھڑے
ہویے-"ماروں سالوں کو ،اور مار "تمام ہال کی پبلک تمہاری اس حرکت پر
تمہارا ساتھ دینے لگی-سیٹیاں،تالیاں اور
شور سے کان کے پردے پھٹنے لگے-
پھر گونڈی میں کئ
سال ہم پڑوسی بن کر رہے-ساتھ ساتھ
گومنا،نمازوں کی ادایگی-تمہیں مجھ سے ایک ہی شکایت تھی –تم کہا کرتے "راغب
بھائ میں نے تم سے تمام اچھی عادتیں سیکھی ہیں ،صرف چایے کی عادت کے علاوہ-چاۓکی پیالی کی
آدھی آدھی تقصیم کرتے وقت تمہارا تکیہ کلام تھا "انصاف کا مندر ہے یہ بھگوان
کا گھر ہے"-
انسان کا جنتی
ہونے کا ثبوت ہے کے وہ حلال رزق کماتے ہویے اپنی جان نچھاور کر دے- تم نے بھی
ڈیوٹی کرتے اپنی جان دی ہے-انشا اللہ ،اللہ سے امید ہے کے ظرور شہید کے درجہ تک
پہنچوں گے-
ع نہ جانےمیرے بعد ان پے کیا گزری
میں
زمانے میں چند خواب چھوڑ آیا تھا
ماشا اللہ ارم
اپنے سسرال میں خوش ہے،تم تو اب نانا بھی بن گیے ہو-رمیز MBA ،محنت اور لگن جو اپنے والد سے ورثے
میں ملی ہے، کے بل بوتے پر اپنا کریر بنانے میں مصروف ہے-عبدل معیز ہواؤں میں اڑنے
لگے ہے-و ہ خواب ،جو تم نے اپنی زندگی میں دیکھے تھے تمہاری اولاد ان میں حقیقت کا
رنگ بھر رہی ہے-بھابھی کو بھی اللہ سلامت رکھے ،صبر جمیل عطا کرے ،تمہارے بعد
تمہارے خاندان کی رہنما بن، تمہاری کمی پوری کررہی ہے-
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें