پھول ہوں ،راکھ ہوں ،یا
ریت پہ قدموں کا نشاں
مروڈ جنجیرا ممبیئ سے 150 کلو میڑکی دوری پر واقع ،صاف
ستھرے بیچ کے لیے مشہور ہے-لیکن اپنی نجی کار سے پہنچے پہنچتے ناکوں چنے چبانے پڑ
جاتے ہیں-سڑکوں کے بیچ گڑھےنہیں، بلکے
لگتا ہے گڑھوں کے بیچ سڑکیں ہو-روہا شہر
پار کرتے کرتے ناک میں دم آجاتا ہے-شہر کے بیچوں بیچ سے سڑک گزرتی ہے-چھوٹی پھوٹی
گلیاں،ممبیئ سے آتا جاتا ٹریفک،سڑک درست کرنے کی بجایے ،جگہ جگہ بڑے بڑے ہورڈنگ
لگے ہویے ہیں جن پر سیاست دانوں کی بد ہیت تصویریں آپ کو دیوالی کی مبارکباد دیتی
نطر آیے گی-جس سے حاصل کچھ نیہں ہوتا سیایت دانوں کی شہرت کا اسٹنٹ ہے-4 گھنٹوں کی
مشقت کے بعد کاشت بیچ پہنچتے ہی تمام جھنجھلاہٹ مٹ جاتی ہے-
کاشت بیچ پر
چھوٹے چھوٹے اسٹال لگے ہیں جہاں سے undergarment
کرایے پر مل جاتے ہیں-نہانے کا لطف اٹھایا
جا سکتا ہے-صاف ستھرے بیچ پر گھوڑا
،اونٹ کی سواری کا انتظام ہے-water
sport،رسی سے بنے جھولوں پر جھولا جا سکتا ہے-
کاشت بیچ سے مروڑ جنجیرہ 8 کلو میٹر کی دوری
پر ہے-راستے میں گزرتے نواب جنجیرہ کا محل کسم پرتی کی حالت میں دیکھا جاسکتا
ہے-مروڈ چھوٹا سا قصبہ ہے-جس وقت ہم وہاں پہنچے دوالی کی چھٹیاں تھی-بیچ خالی پڑا تھا-ہماری ہوٹل sea
shell کی کھڑکی سے بیچ اور سمندر کا کنارا آسانی سے دیکھا جا سکتا
تھا-خالی بیچ پر گھونے کا کچھ اور ہی مزا ہوتا ہے-لہروں کا شور،سمندر کا جوار بھاٹا-لہریریں
اٹھ اٹھ کر قدموں کے نشان مٹا دیتی ہے تو لگتا ہے ہم دنیا میں ان قدموں کے نشانوں
کی طرح ہے ،نہ جانے کب مٹ جایے- بقول شاعر
راکھ ہوں
پھول ہوں یا ریت پہ قدموں کے نشاں
آپ کو حق ہے مجھے جو بھی جی چاہے کہہ لے
سمندر کی لہریں
جب غصہ دکھانے کے بعد پیچھے ہٹ جاتی ہے تو سمجھ میں نہیں آتا اتنا پانی کہاں غائب
ہو جاتا ہے-پھر بے شمار پرندے اپنی روزی تلاش کرتے وہاں پہنچ جاتے ہیں-کون انہیں بتاتا ہے-خدا کی
زات پر یقین آنے لگتا ہے-
سمندر کے
بیچوں بیچ زنجیرا کا قلعہ ہے –جہاں سے سدھیوں نے سالوں حکومت کی-قلعہ اس طرح بنایا
گیا ہے کہ دور تک پتا ہی نہیں چلتا کے اس کا داخلہ کہاں سے ہوتا ہے-قلعہ کے 20 فیٹ
کی قربت سے داخلے کا دروازہ دکھایئ پڑتا ہے-114 بروج ہیں جہاں قلعہ کی حفاظت کے
لیے توپیں نصب کی گئ تھی،جو اب بھی موجود ہیں-
قلعہ تک پہنچنے کے لیے اب بھی وہی پرانے سفینوں کا استعمال
ہوتا ہے جو ہوا کے زور سے چلتے ہیں-ٹکٹ صرف 20 روپیے-
قلعے کے دربار
کی عمارت جو کسی زمانے میں 7 منزلیں ہوا کرتی تھی وہ اب صرف ساڑھے تین منزلہ بچ گئ ہے-
شہر سے چند
کلو میٹر کی دوری پر عالیشان مزارات بھی ہیں جن کی تاریخ کویئ نہیں جانتا-کسم پرسی
کی حالت میں ہیں-بنانے والوں نے سوچا ہوگا رہتی دنیا تک رہینگے- اف انسان کی
نادانی
جلتی بجھتی سی
روشنی کے پرے
سمٹا سمٹا سا ایک مکاں تنہاں
راہ دیکھا کرے گا صدیوں تک
چھوڑ جایے گا یہ جہاں تنہاں
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें