रविवार, 30 सितंबर 2018

khulus ho to nikalti hain ghaib se rahen

राजेंद्र पवार चेयरमैन VRSCCL ,भीष्म पितामा COL . अनवर उमर ,डायरेक्टर सिद्दीकी ,राज ठकर ,मनोज शाह और महफ़िल में बैठे तमामं Audience आप सब को मेरी तरफ से सलाम और दिली दुआ.
  जब भी वाशी रेलवे स्टेशन को विज़िट करता हूँ दिल से दुआ निअल  पड़ती है। २००० जब वाशी स्टेशन पर office खरीदी थी ,पूरा वाशी स्टेशन काम्प्लेक्स टूटे फूटे खण्डर की शकल में था। उस वक़्त CIDCO द्वारा Maintenance आज से double हुवा करता था। लेकिन सफाई कामगार कभी देखने को नहीं मिलते थे। दीवारों पर पान की पिचकारियां ,जगह जगह शराब की खाली  बोतलें , गुटके के खाली  पैकेट्स ,सिगरेट के टुकड़ों के ढेर। सिक्योरिटी ग़ायब।  फिर ७ साल पहले VRSCCL कंपनी वाशी स्टेशन कॉम्लेक्स की Maintenance के लिए बनायीं गयी। पवार साहब ने मुझ से कहा शैख़ साहेब २५००० रूपये में कंपनी का share holder बन जाइये। मैं उन की बात पर आंख बंद कर  यक़ीन करता हूँ ,बन गया। VRSCCL बनने के प्रति चेयरमैन और चारों  Directors , अल्लाउद्दीन के जिन की तरह कामों में लग गए और ४ ,५ सालों में वाशी स्टेशन काम्प्लेक्स की काया पलट दी। हर बार एक नया addition देखने को मिलता। मुस्तअद  security ,वीडियो कॅमेरेस ,चमचमाते corridors ,दीवारें ,जगह जगह गमले ,खूबसूरत लॉन्स और हरे भरे  gardens और पिछली बार लिफ्ट में enter होने से पहले automatic doors देख कर मुझे  लगा में वाशी स्टेशन कॉम्लेक्स में नहीं बल्कि किसी ५ स्टार होटल में enter हो रहा हूँ। तब मुझे लगा में ने एक ऐसी गाय खरीद ली है जो  दिन ब दिन मोटी होती जारही है और दूध भी ज़्यादा देने लगी है।  मुझे यक़ीन है अगले साल तक lobby और corridor में carpet बिछे मिलेंगे। chairman और directors को दिल से दुआ निकलती है income tax department से करोड़ों रुपये maintenance वसूल करना आसान नहीं और आप लोगों ने वसूल कर चमत्कार कर दिखाया। CIDCO को  Lift replacement करने के लिए राज़ी कर लिया शायद ४० या ५० करोड़ का estimate है। Bravo
आप सब के लिए सेहत तंदरुस्ती लम्बी उम्र के लिए दुआएं। उम्मीद करता हूँ हर society, complex को आप जैसे काम करने वाले मिल जाएँ।
आखिर में वाशी स्टेशन कम्प्लेकस की तब्दीली पर एक शेर नज़र करता हूँ।
दुआ बहार की मांगी तो इतने फूल खिलें
कहीं जगह न मिली मेरे आशियाने को 

शनिवार, 8 सितंबर 2018

khatme Qura'n


                                ختم قران
26 اگست 2018 بروز اتوار نیرول میں   12 سال 1 مہینے کے بعدایک نیئ تاریخ رقم کی گئ-قرآن کی تفسیر کا سلسلہ جو جولایئ 2006 سے مرکز فلاح نیرول میں شروع کیا گیا تھا اختتام کو پہنچا-کچھ لوگ  تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں –مرحوم صادق احمد،فاروق الزماں فیروز چوگلے  اورمغل صاحب  عرصہ تک تفسیر قرآن کا  سلسلہ جاری کرنے کے لیے تگ و دو میں لگے تھے-کبھی مغل صاحب کے گھر تفسیر ہوتی تو کبھی جان پہچان والوں کے کمپیوٹر کلاس میں کلاسس ختم ہونے کے بعد-جولایئ 2006 میں عالی جناب علی ایم شمسی صاحب جو مرکز فلاح کے صدر ہے ،کے ساتھ صلاح مشورے اور ان کی اجازت سے باقاعدہ تفسیر قرآن کا سلسلہ  مرکز فلاح کی آفس میں کوہ نور بلڈنگ کیے دو سرے فلور پرشروع کیا گیا-قرآن کے ایک رکوع کو لیا جاتا اور اس پر تفصیل سے گفتگو ہوتی-ابتدایئ شرکت کرنے والوں میں شمسی صاحب،بسم اللہ سر،مرحوم صادق صاحب جو پروگرام کوکنڈکٹ بھی کیا کرتے-فاروق الزماں ،یوسف نشاندار،عباس بھائی،مقیم وارثی جو اکثر ناشتہ کا بندوبست بھی کرتے-نثار صاحب جو اب الوا شفٹ ہوگئے،ظہیر صاحب،موڈک صاحب،نگر والا جو پڑوسی ہونے کے ناطے اکثر ناشتہ کرواتے-
ابتدا میں درس قرآن کی بڑی مخالفت کی گئی-‎یہاں تک کے لوگوں کو شریک ہونے سے روکا گیا-چیلنج کیا گیا تفسیر کا سلسلہ دو ماہ سے زیادہ نہیں چل سکتا-فاروق الزماں ، مرحوم صادق صاحب کے حوصلے بلند تھے-بقول اقبال
بادئ تند مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
تفسیر قرآن کو بند کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زرو لگایا گیا-تفسیر میں عالم کی شرکت نہ ہونے پر اعتراضات کئے گئے-حسن ندوی صاحب کی شمولیت کے بعد بھی یہ سلسلہ تھما نہیں-بقول شاعر "یہ بہانے ہیں دل دکھانے کے"
یہاں تک کہا گیا کے یہ تفسیر گمراہی کا باعث ہو سکتی ہے-12 سال سے تفسیر کا سلسلہ جاری ہے الحمدوللہ کوئی گمراہ نہیں ہوا-تفسیر میں شامل ہو نے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا،لوگ فیض یاب ہوتے رہے- "لوگ آتے گئے اور کارواں بڑھتا گیا" سال میں صرف ایکبار عید کی وجہ سے تفسیر نہیں ہوپائی-یہ اللہ کا کرم ہی تو ہے-
قرآن سے سائنس اور حالات حاضرہ کے مسائل کا حل مرحوم صادق بھئی اور فاروق الزماں کی سیر آمیز گفتگو سے حاصل ہوتا-ڈاکٹر شریف  کا ذکرواذکار اور روحانیت  کی طرف متوجہ کروانا-نوجوان عرفات نے قرآن مجید کی تشریح الگ انداز میں کر، ہم سب کو چونکا دیا-جناب دوھوکے صاحب نے ایک ‏غواص کی طرح قرآن کے روٹ ورڈس تک ہماری  شناسائی کروائی-عباسی صاحب،سید سرور علی،پروفیسر عرفان شاہد،ذید پٹیل،ڈاکٹر ظہیر صاحب سب سے ہم نے بہت کچھ سیکھا-شہزادخان صاحب کا تفسیر کا ایک انوکھا انداز دیکھا،تفسیر کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے چٹکلے،اپنے  ذاتی تجربات سنا کر محفل کو ذعفران زار کرنے کا فن انہیں ہی آتا ہے-مفتی کولپیکر کو بھی سنا-اشرف بھائی نے بھی کافی محنت کر تفسیر کے فن پر کافی معلومات جمع کرلی-2 منٹ کے سید صاحب کا ذکر کرنا نہ بھولونگا-کمال حسن ندوی صاحب کی شرکت سے تفسیر  میں چار چاند لگ کئے-
تفسیر کی محفلوں میں شریک ہوکر لگا کے زندگی کا ایک طویل عرصہ ہم نے لا حاصل باتوں میں ضائع کر دیا-بقول شاعر
زندگی سے یہی گلا ہے مجھے
تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے
پچھلے 7 سالوں سے جناب نصرواللہ قاسم نے جس خوش اسلوبی سے اس درس قرآن کو اپنے دولت کدے پر منعقد کرواکے اس کا حق بھی ادا کر دیا-اللہ انہیں جزائے خیر دے،ان کے رزق میں برکت ہو-ان کے گھر میں قرآن پڑھنے سے برکتوں کا نزول ہو-حنا،عمار،انصار  پورے خاندان نے ، جس جوش خروش سے ان نیک کاموں میں شرکت کی قابل ستائش ہے-نیت کا اثر درس قرآن کی محفلوں میں نئے نئے لوگوں کی شرکت ،لوگوں کا ساتھ، قرآن کلاسس،کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے-اس درس کی روشنی پورے نیرول میں پھیل رہی ہے-جامع مسجد میں بھی پچھلے ایک برس سے فجر کے بعد تفسیر کا سلسلہ جاری ساری ہے-سنیچر کے روز جناب مشتاق پٹیل کے گھر تفسیر کا پروگرام ہوتا ہے-سیکٹر 23 ،نیرول ویسٹ میں بھی کئی عرصہ تک آصف بھائی اور ان کے گروپ کی کوششوں سے تفسیر قرآن ہوتی رہی-جو بھی ان کوششوں میں لگا ہے اللہ انہیں جزائے خیر عطا کرے-نیرول کی تاریخ جب بھی لکھی جائینگی ان کوششوں کا ذکر سنہری حرفوں میں لکھا جایئنگا-اور اللہ کے دربار میں اجر عظیم کے مستحق ہونگے-مرحوم صادق بھائی ،فاروق الزماں،قاسم بھائی کی کوششوں کو مد نظر رکھتے ،شعر نظر کر رہا ہوں
دعا دیتی ہیں راہیں آج تک مجھ آبلہ پا کو
میرے پیروں کی گلگاری بیابان سے چمن تک ہے
بقول فاروق الزماں قرآن کبھی ختم نہیں ہوتا،اگلے ہفتہ سےانشااللہ، اسی مقام پر تفسیر کا سلسلہ پھر نئے سرے سے شروع ہونگا-نوجوانان نیرول سے گزارش ہے کے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے-

शनिवार, 1 सितंबर 2018

kya zamane me panpne ki yahin baten hain


  
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
کیرالا میں سیلاب کی تباہی کے بعد تصویر کے دو رخ ہمارے سامنے آئے ہیں-ہزاروں خدمت خلق سے معمور  والنٹیرس ہندوستان بھر سے (کیئ لوگ کشمیر سے بھی آئے)اور ریلیف کیمپس میں اپنی بے لوث خدمات انجام دی-مقامی لوگوں نےاونم تہوار کے لئے پس انداز رقم سیلاب ذدگان کے لئے وقف کر دی-ایک آٹھ سالہ غریب لڑکی کا جذبہ کے اس نے اپنی چار سالہ بچت جو سايئکل خریدنے کے لئے،  عرق ریزی سے جمع  کر رکھی تھی چیف منسٹر فنڈ میں دان کر دی-جیسوال  کے-پی مچھوارے نے خدمت خلق کی انتہا کر دی،عورتوں،ضعیفوں۔بچوں کو بوٹ میں سوار کرنے کے لئے اپنی پیٹھ کو پلیٹ فارم بنوا دیا-سنتی کوپا بستی میں لوگوں نے سیلاب زدگان کے لئے مسجد،چرچ،مندرکے دروازے ،بلا تفریق کھول دئے- تصویر کا دوسرا  کریہہ رخ ،کچھ بے انصاف ظالم  شرپسندوں نے
"وہ کرے بات تو ہر لفظ سے بدبو آئے "کے مصداق ٹویٹر،سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا ہے-کچھ کا کہنا ہے کیرالہ کے عیسائی اور مسلمانوں پر بیف کھانے کی وجہ سے  یہ عذاب آیا ہے-کوئی دور کی کوڑی کھیچ لایا ہے کہ "سابر ملا مندر میں عورتوں کو کورٹ سے داخلہ کی اجازت پر دیوي کا شراپ آیا ہے”-ایک نے کہا صرف ہندوں تنظیموں کو عطیات دئے جائے تاکے مدد ہندو وں تک پہنچے-کیونکے مسلمانوں اور عیسائیوں کو مدد کی ضرورت  نہیں، ان کے خاندان والے بیرونی ممالک میں کام کرتے میں-کرناٹک کے بی-جے-پی رکن باسن گوڑا نے زہر فشانی کی انتہا کردی-"یہ سیلاب کیرالہ میں گائے کاٹنے کی وجہ سے آیاہے"-
نفرتوں کے بیج بونے والے،زہر اگلنے والے چاہتے میں کہ سیلاب زدگان ،مصیبت ذدہ کیرالہ والے جو ہندوستان کے شہری ہیں، تک مدد نہ پہنچ سکےلیکن امداد پہنچانے والوں نے ثابت کر دیا کے انسانیت اب بھی زندہ ہے،عام لوگوں کا جذبہ خدمت خلق ابھی مرا نہیں-
وہ لمحہ زندگی بھر کی عبادت سے بھی پیارا ہے  - جوایک انسان نے انسان کی خدمت میں گزارا ہے

                                                         क्या ज़माने  में पनपने की यहीं बातें हैं
केरला में सैलाब (फ्लड) की तबाही के बाद तस्वीर के दो रुख दिखाई पड़े। इंसानियत का दर्द रखने वाले हज़ारों वॉलन्टर्स कश्मीर से कन्या कुमारी तक रिलीफ कैम्प्स में खिदमत में जुड़ गए। लोगों ने ओनम तहवार की क़ुरबानी दे कर सैलाब से पीड़ित लोगों को जमा पैसे दान कर दिए। एक आठ साल की लड़की ने ४ साल तक जमा किया पैसे जो उसने साइकिल खरीदने के लिए जमा किया थे , सैलाब पीड़ितों के लिए दान कर दिया। जैस्वाल के  पी मछवारे ने अपनी पीठ का उपयोग कर लोगों को बोट में सवार किया। मंदिर ,मस्जिद ,चर्च के दरवाज़ें सैलाब से पीड़ित लोगों के लिए खोल दिए गए।
कुछ लोग ऐसे भी थे जो इन पीड़ित लोगों के मुसीबत के समय ज़ख्मों पर नमक छिड़कने का काम किया। ट्विटर और सोशल मीडिया पर नफरत फैलाने में व्यस्त रहे "केरला में मुसलमानो और ईसाईयों के बीफ खाने पर भगवन का श्राप आया",  केवल हिन्दूओ को मदद पहुचायी जाएँ। बी जे पी के बासन गौड़ा का ये मानना था के "केरला में सैलाब गाय काटने के कारण  आया।
नफरतों के बीज बोने वाले ज़हर उगलने वाले चाहतें है की सैलाब से पीड़ित केरला वाले जो भारत के वासी हैं उन तक इस मुसीबत  की घडी मदद न पहुंचे लेकिन लोगों ने साबित कर दिया की इंसानियत अब भी ज़िंदा है।
वो लम्हा ज़िन्दगी भर की इबादत से भी प्यारा है
जो एक इंसान ने इंसान की खिदमत में गुज़ारा है।