لوکل ٹرین
1950 کی پرانی ہندی فلمیں دیکھ آہ نکل پڑتی ہے ، ممبیئ کی لوکل کیا خالی خالی اور صاف
ستھری ہوا کرتی- بھیک مانگنا بھی کتنا آسان ہوا کرتا تھا-فقیر ساز ہاتھوں میں لیے
خوبصورت دھنیں بجاتے اطمنان سے مسافروں بیچ سے گزرتے داد وصول کرتے-کیئ تو ترقی
کرتے کرتے اپنے زمانے کے مشہور گویئے،میوزک ڈایرکٹر بن گیے-اب تو لوکل ٹرین کو
دیکھ کر ہوا سے بھرے اس غبارے کا تصور ہوتا ہے جسے پھٹنے کی حد تک پھونک دیا گیا
ہو-ٹرین کے کمپارٹمنٹ میں لوگ کھچا کھچ بھرے ہوتے ہین،بچے کچھے لوگ چھت پر چڑھ جاتے
ہیں- کچھ دروازے کھڑکیوں پر لٹک جاتے ہیں،باقی بوگیوں کے بیچ ،اگر فی مربع فیٹ
لوگوں کی تعداد نکالی جایے تو ہوا کا گزر بھی ٹرین کی بوگی سے مشکل نظر آتا
ہے-محسوس ہوتا ہے آپ کے سانس سے نکالی ہوا آپ کے سامنے کا مسافر
استعمال کر رہا ہو-ہلنے کے لیے جگہ نہیں ہوتی اس کا فایدہ یہ ہوتا کے ، اکژ
مسافروں میں تو تو میں میں تو ہوجاتی ہاتا
پایئ نہیں ہو پاتی-ٹرین میں لگے پنکھے کبھی کبھی سویچ بند کرنے پر چل پڑتے ہیں
لیکن ہوا پھینکنے کی بجایے اکزاسٹ فین کا کام کرتے نظر آتے ہیں-لوکل ٹرین کی
بوگیوں میں ضرورت زندگی کا ہر سامان خریدہ جا سکتا ہے-کنگھی سے لیکر پھل پھروٹ،نیل
کٹر ،سبزیاں،ریڈی میڈ ڈریس،میک اپ کا سامان وغیرہ-ٹرین میں دل بہلانے کے کیئ سامان
ہوتے ہیں ،ہارمونیم ،ڈھول گلے میں لٹکایے ،ہاتھوں میں منجیرے لیے بے ڈھب بلند ، آواز میں گاتے فقیر،بچی کچھی کمی بھجن گاتے
مسافر پوری کر دیتے ہیں-
آپ کی تمام
پرشانیوں کا حل ٹرین میں لگے اشتہارات میں مل جایے گا-پسندیدہ نوکری
،اولاد،پریشانی سے نجات،جادو ٹونے سے علاج بابو بنگالی کر دینگے-نامردگی،کینسر اور
ایڈس کا شرطیہ علاج بغیر آپریشن کے ،جو
کسی ڈاکٹر یا ساینٹسٹ کے پاس نہیں ان
اشتہارات میں تلاش کر لیجیے-محبوبہ کو گرویدہ کرنا ہو یا اسقاط حمل دنیا کی کونسی
مشکل ہے جو آپ ان اشتہارات کی مدد سے حل نہیں کر سکتے-لوکل میں سفر کے دوران آپ کا
بٹوہ پاکٹ ماروں کے زریعہ چوری ہونا لازمی ہے،جو ایک ٹولی
کی شکل میں ہر کمپارٹمنٹ میں موجود ہوتے
ہیں-اگر آپ نے احتجاج کرنے کی کوشش کی تو آپ کو پیٹ بھی دیا جاتا ہے،شرافت اسی میں ہے کے
بٹوے کا غم نا کیا جایے،ویسے بھی آج کل لوگ بٹوے میں عشقیہ خطوط زیادہ اور پیسہ کم
رکھتے ہیں-
لوکل ٹرین کی
رفتار چینوٹی کی رفتار سے کم و بیش زیادہ
ہوتی ہے-ریلوے کی زمین پر پٹری کے متوازی جھوپڑیاں بنانے کی کھلی اجازت ہے-اس میں
یہ سہولت ہوتی ہے کے ٹرین سے اتریے اور اپنے گھر میں داخل ہوجایے-گھر صاف کر ،کوڑا
کرکٹ اور غلاظت پٹریوں پر پھینکنےمیں آسانی-بیت الخلا کے لیے بھی گھر سے دور جانے
کی ضرورت نہیں-کچھ عرصے میں لایٹ پانی مفت دستیاب ہوجاتا ہے-ہینگ لگے نہ فٹکری
پٹریوں پر باقاعدہ
کرکٹ کھیلا جاتا ہے مقابلے منعقد ہوتے ہیں-اگر موٹر مین کی غلطی سے (کھلاڑی کی
غلطی ہو ہی نہیں سکتی)کویئ حادثہ کا شکار ہو جاتا ہے تو موٹر مین کو بھاگ کر جان
بچانی پڑتی ہےاور مسافروں پر پتھروں کی بوچھار-اکثر و بیشتر بچوں کی نشانہ بازی کی
مشق میں مسافر اپنی آنکھیں کھو بیٹھتے ہیں-اب پٹریوں کے کنارے رہنے والے باسیوں نے
مانگ کی ہے کہ دو ٹرینوں کے بیچ کا وقفہ بڑدا دیا جایے تاکہ ان لوگوں کے سونے
کھیلنے اور بچوں کی پڑھایئ میں خلل نہ پڑھے-سرکار بھی اس معاملے پر سنجیدگی سے غور
کر رہی ہے-
برسات کے موسم
میں لوکل ٹرین کی رفتار بڑھ جاتی ہے-پٹریاں پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے ٹرینیں تیرنے
لگ جاتی ہے-لیکن سامنے آنے والی ٹرین سے ٹکرانے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے اس لیے ٹرین
سروس روک دی جاتی ہے-
پرانے زمانے میں نیے پل
تعمیر ہوتے تھے تو بچوں کی بلی چڑھایئ جاتی تھی -50 لاکھ لوگوں کو روزانہ لیکر چلنے والی یہ
ٹرینیں بھی روزانہ کیئ لوگوں کی بلی لیتی ہیں-لیکن جسطرح ممبیئ کے شہریوں کو
کھانا،پینا،سونا ضروی ہے چھ بج کر بیس منٹ کی ٹرین کا سفر بھی لازمی ہے-