اب تو ہم
نیے دوست بنانے سے رہے
جیسے جیسے ہم اپنی پیدایشی تاریخ سے دور اور تاریخ وفات سے
قریب تر ہوتے جا رہے ہے-پرانے دوست ،پرانے
تعلقات کی اہمیت کا احساس ہونے لگا ہے-وہ عمارت جس کی بنیادیں اس وقت رکھی گئ تھی،
جب انسان معصوم ہوتا ہے دل میں کوئ چھل کپٹ نہیں ہوتی-عمر کے ساتھ ساتھ ایسے رشتے
ایک مضبوط عمارت کی شکل میں تبدیل ہوجاتے
ہیں-شراب جتنی پرانی ہوتی ہے، اتنی ہی قیمتی ہوجاتی ہے-
حمید ویسے
میرا ہم عمر رہا ہے-میرا کلاس میٹ رہا ہے،
لیکن رشیتے میں، میرا بھتیجا ہوتا ہے-سگے چچا زاد بھائ کا لڑکا-بچپن ہی میں مجھے،
بزرگی کا شرف حاصل ہوگیا تھا-حمید کی سگی بہن سعیدہ جو عمر میں میری بڑی بہن کے برابر تھی اس کے
بچوں کا تو لڑکپن میں ہی نانا بن گیا تھا-بچپن میں ،حمید اور میں کاٹیا فیل میں پڑوس ہی میں رہتے تھے-لیکن دونوں الگ الگ اسکول میں پڑھتے
تھے-لیکن تھی دانت کانٹے کی دوستی-اسکول کے
بعد ہم
ایک دوسرے جدا نہیں ہوتے تھے-یکایک چھٹی جماعت میں نعیم دادا کا تبادلہ ناسک
ہوگیا-چھٹیوں میں بھڑبھونجا سے لوٹا تو وہ
ناسک شفٹ ہو چکے تھے-کئ روز تک میں اپ سٹ رہا-ایک خلا سی زندگی میں محسوس ہونے لگی
تھی-
یہ جدایئ ہم دونوں کے بیچ دراڑ نہ
ڈال پایئ-یہ خلا ہم دونوں ایک
دوسرے کی یادوں سے بھر لیتے-حمید کی اماں
جنہیں ہم بھابھی اماں کہتے،انسانی روپ میں مامتا کی دیوی تھی –ان کی موجودگی میں
نے کبھی اپنے آپ کو یتیم محسوس نہیں کیا-نعیم دادا جو اتفا قن میرے بڑے
بھایئ صادق صاحب کے ہم عمر ہے ،جمیل جاوید کا ہم عمر-نعیم دادا کی اہلیا کو ہم نے
بڑی بھابھی کا درجہ دے رکھا تھا اور انہوں نے اس طرح نبھایا بھی- سعیدہ آپا،سلطانہ،عابد علی،شایستہ پروین،کاظم علی ایک
طویل سلسلہ ،طویل کڑی ہے رشتوں کی- کچھ
رشیتے خونی ہوتے ہیں ،کچھ رشتوں کی جڑیں
مظبوط تناور درختوں کی طرح دل کی گہرایوں
تک اتری ہوتی ہیں-ان کے غم ہمارے غم بن جاتے ہیں اور ان کی خوشیاں ہماری
خوشیاں-کچھ روز پہلے جلگاوں میں سلطانہ سے ،ظیغم کی موت کی خبر سن کر اپنے جزبات
پر قابو نہ رکھ پایا-آنکھوں سے آسنئوں کا سیلاب
بہہ نکلا-وہ شخص رشتہ میں میرا
داماد لیکن میں نے انہیں اپنا بہنویئ مانا، ایک زندہ دل شخصیت، ان کے انتقال
کی خبر عرصہ بعد ملی تھی- لیکن کیا کیا جایے-
مجھ سے بھی اڑتے ہویے لمحے
نہ پکڑے جا سکے
میں بھی دنیا کی طرح حالات کے چکر میں ہوں
حمید سے دور رہ کر بھی ،اس کے تعلق سے
میں ہمیشہ update رہا کرتا-اور کسی نہ کسی قریبی رشتہ
دار کی شادی، موت میں ہم ٹکراتے رہتے-اس
کا انجنیرنگ کی تعلیم مکمل کر ، پرفکٹ سرکل ،وی-آیئ-پی میں نوکری،شادی،بچوں کی
پیدائش-اورمجھے سب سے زیادہ فخر اس بات کا
تھا کے رشتہ داروں میں سب سے پہلی ماروتی اسی نے خریدی تھی-ایک دور وہ بھی آیا جب وہ صحت کے تعلق
سے بہت پریشان رہا-اس کی angioplasty
کے بعد ناسک میں اس سےاسپتال میں ایک مختصر سی ملاقات کی تھی-حالات کیسے بھی رہے
ہو اس نے زندگی سے کبھی ہار نہیں مانی-وہی مسکراتا چہرہ-وہی خلوص،وہی اپنائیت-عمر
کے اس مقام پہ جب کے میں پھول کے کپہ ہوگیا ہوں حمید اب بھی سلم،ٹرم-قد تو عمر کے
حساب سے بڑھ گیا ہے،لیکن چہرہ وہی بچوں کی معصومیت والا، مانو کسی نے ٹایئم فریم
میں اسے قید کر دیا ہو-کچھ روز پہلے بشاش کے لڑکے کی شادی میں ملاقات ہویئ تو اپنے
داماد اور لڑکی کی انگلنڈ شفٹ ہونے کی خبر مجھے سنا کر خوش ہورہا تھا-حنا کے رشتے
اور شادی کی خبر سن کر باغ باغ ہوگیا-
یہ دور کے تہذیب
انحطاط پذیر ہے-آپسی محبت ختم ہوتی نظر آتی ہے-چند ایسے لوگ جو
پرانی قدروں کے علمبردار ہیں،اور ان کے وجودسے دنیا قایئم ہے-حمید اور اس کا خاندان
انہیں قدروں کے زندہ ثبوت ہیں-میاں بیوی تمام زمہ داریوں سے آزاد ہوکر ،ناسک جیسے
پرسکون مقام پر خوبصورت مکان میں زندگی کا لطف لیتے دن گزار رہے ہیں-اللہ سے دعاگو ہوں ان کی
خوشیاں تا ابد قائم رہے-