शुक्रवार, 31 अक्टूबर 2014

ab to hum naye dost banane se rahe



                                                                               اب تو ہم نیے دوست بنانے سے رہے
جیسے جیسے ہم اپنی پیدایشی تاریخ سے دور اور تاریخ وفات سے قریب تر  ہوتے جا رہے ہے-پرانے دوست ،پرانے تعلقات کی اہمیت کا احساس ہونے لگا ہے-وہ عمارت جس کی بنیادیں اس وقت رکھی گئ تھی، جب انسان معصوم ہوتا ہے دل میں کوئ چھل کپٹ نہیں ہوتی-عمر کے ساتھ ساتھ ایسے رشتے ایک مضبوط عمارت  کی شکل میں تبدیل ہوجاتے ہیں-شراب جتنی پرانی ہوتی ہے، اتنی ہی قیمتی ہوجاتی ہے-
       حمید ویسے میرا ہم عمر رہا ہے-میرا کلاس میٹ  رہا ہے، لیکن رشیتے میں، میرا بھتیجا ہوتا ہے-سگے چچا زاد بھائ کا لڑکا-بچپن ہی میں مجھے، بزرگی کا شرف حاصل ہوگیا تھا-حمید کی سگی بہن سعیدہ  جو عمر میں میری بڑی بہن کے برابر تھی اس کے بچوں کا تو لڑکپن میں ہی نانا بن گیا تھا-بچپن میں ،حمید اور میں کاٹیا فیل میں  پڑوس ہی میں  رہتے تھے-لیکن دونوں الگ الگ اسکول میں پڑھتے تھے-لیکن تھی دانت کانٹے کی دوستی-اسکول کے  بعد ہم   ایک دوسرے جدا نہیں ہوتے تھے-یکایک  چھٹی جماعت میں نعیم دادا کا تبادلہ ناسک ہوگیا-چھٹیوں میں بھڑبھونجا سے لوٹا تو  وہ ناسک شفٹ ہو چکے تھے-کئ روز تک میں اپ سٹ رہا-ایک خلا سی زندگی میں محسوس ہونے لگی تھی-
                یہ جدایئ  ہم دونوں کے بیچ  دراڑ نہ  ڈال پایئ-یہ خلا ہم دونوں  ایک دوسرے کی یادوں سے بھر  لیتے-حمید کی اماں جنہیں ہم بھابھی اماں کہتے،انسانی روپ میں مامتا کی دیوی تھی –ان کی موجودگی میں نے کبھی اپنے آپ کو  یتیم  محسوس نہیں کیا-نعیم دادا جو اتفا قن میرے بڑے بھایئ صادق صاحب کے ہم عمر ہے ،جمیل جاوید کا ہم عمر-نعیم دادا کی اہلیا کو ہم نے بڑی بھابھی کا درجہ دے رکھا تھا اور انہوں نے اس طرح نبھایا بھی- سعیدہ  آپا،سلطانہ،عابد علی،شایستہ پروین،کاظم علی ایک طویل سلسلہ ،طویل کڑی   ہے رشتوں کی- کچھ رشیتے خونی ہوتے ہیں ،کچھ  رشتوں کی جڑیں مظبوط تناور   درختوں کی طرح دل کی گہرایوں تک اتری ہوتی ہیں-ان کے غم ہمارے غم بن جاتے ہیں اور ان کی خوشیاں ہماری خوشیاں-کچھ روز پہلے جلگاوں میں سلطانہ سے ،ظیغم کی موت کی خبر سن کر اپنے جزبات پر قابو نہ رکھ پایا-آنکھوں سے آسنئوں کا سیلاب    بہہ نکلا-وہ شخص رشتہ میں میرا داماد لیکن میں نے انہیں اپنا بہنویئ مانا، ایک زندہ دل شخصیت، ان کے   انتقال کی خبر عرصہ بعد ملی تھی- لیکن کیا کیا جایے- 
مجھ سے بھی اڑتے ہویے لمحے  نہ پکڑے جا سکے
میں بھی دنیا کی طرح حالات کے چکر میں ہوں
                 حمید سے دور رہ کر بھی ،اس کے تعلق سے میں ہمیشہ  update رہا کرتا-اور کسی نہ کسی قریبی رشتہ دار  کی شادی، موت میں ہم ٹکراتے رہتے-اس کا انجنیرنگ کی تعلیم مکمل کر ، پرفکٹ سرکل ،وی-آیئ-پی میں نوکری،شادی،بچوں کی پیدائش-اورمجھے  سب سے زیادہ فخر اس بات کا تھا کے رشتہ داروں میں سب سے پہلی ماروتی اسی نے خریدی تھی-ایک دور وہ بھی آیا جب وہ صحت کے تعلق سے بہت پریشان رہا-اس کی angioplasty  کے بعد ناسک میں اس سےاسپتال میں  ایک مختصر سی ملاقات کی تھی-حالات کیسے بھی رہے ہو اس نے زندگی سے کبھی ہار نہیں مانی-وہی مسکراتا چہرہ-وہی خلوص،وہی اپنائیت-عمر کے اس مقام پہ جب کے میں پھول کے کپہ ہوگیا ہوں حمید اب بھی سلم،ٹرم-قد تو عمر کے حساب سے بڑھ گیا ہے،لیکن چہرہ وہی بچوں کی معصومیت والا، مانو کسی نے ٹایئم فریم میں اسے قید کر دیا ہو-کچھ روز پہلے بشاش کے لڑکے کی شادی میں ملاقات ہویئ تو اپنے داماد اور لڑکی کی انگلنڈ شفٹ ہونے کی خبر مجھے سنا کر خوش ہورہا تھا-حنا کے رشتے اور شادی کی خبر سن کر باغ باغ ہوگیا-
    یہ دور کے تہذیب انحطاط پذیر ہے-آپسی محبت ختم ہوتی نظر آتی ہے-چند ایسے لوگ   جو پرانی قدروں کے علمبردار ہیں،اور ان کے وجودسے دنیا قایئم ہے-حمید اور اس کا خاندان انہیں قدروں کے زندہ ثبوت ہیں-میاں بیوی تمام زمہ داریوں سے آزاد ہوکر ،ناسک جیسے پرسکون مقام پر خوبصورت مکان میں زندگی کا لطف لیتے  دن گزار رہے ہیں-اللہ سے دعاگو ہوں ان کی خوشیاں تا ابد قائم رہے-

मंगलवार, 21 अक्टूबर 2014

rakh hun phool hun ya ret pe qadmon ka nishan(urdu)






                      

                     پھول ہوں ،راکھ ہوں ،یا ریت پہ قدموں کا نشاں
مروڈ جنجیرا ممبیئ سے 150 کلو میڑکی دوری پر واقع ،‎صاف ستھرے بیچ کے لیے مشہور ہے-لیکن اپنی نجی کار سے پہنچے پہنچتے ناکوں چنے چبانے پڑ جاتے ہیں-سڑکوں کے بیچ گڑھےنہیں،  بلکے لگتا ہے  گڑھوں کے بیچ سڑکیں ہو-روہا شہر پار کرتے کرتے ناک میں دم آجاتا ہے-شہر کے بیچوں بیچ سے سڑک گزرتی ہے-چھوٹی پھوٹی گلیاں،ممبیئ سے آتا جاتا ٹریفک،سڑک درست کرنے کی بجایے ،جگہ جگہ بڑے بڑے ہورڈنگ لگے ہویے ہیں جن پر سیاست دانوں کی بد ہیت تصویریں آپ کو دیوالی کی مبارکباد دیتی نطر آیے گی-جس سے حاصل کچھ نیہں ہوتا سیایت دانوں کی شہرت کا اسٹنٹ ہے-4 گھنٹوں کی مشقت کے بعد کاشت بیچ پہنچتے ہی تمام جھنجھلاہٹ مٹ جاتی ہے-
   کاشت بیچ پر چھوٹے چھوٹے اسٹال لگے ہیں جہاں سے undergarment کرایے پر مل جاتے ہیں-نہانے کا لطف اٹھایا  جا سکتا ہے-صاف ستھرے بیچ پر  گھوڑا ،اونٹ کی سواری کا انتظام ہے-water sport،رسی   سے بنے جھولوں پر جھولا جا سکتا ہے-
      کاشت بیچ سے مروڑ جنجیرہ 8 کلو میٹر کی دوری پر ہے-راستے میں گزرتے نواب جنجیرہ کا محل کسم پرتی کی حالت میں دیکھا جاسکتا ہے-مروڈ چھوٹا سا قصبہ ہے-جس وقت ہم وہاں پہنچے دوالی کی چھٹیاں  تھی-بیچ خالی پڑا تھا-ہماری ہوٹل  sea shell کی کھڑکی سے بیچ اور سمندر کا کنارا آسانی سے دیکھا جا سکتا تھا-خالی بیچ پر گھونے کا کچھ اور ہی مزا ہوتا ہے-لہروں کا شور،سمندر کا جوار بھاٹا-لہریریں اٹھ اٹھ کر قدموں کے نشان مٹا دیتی ہے تو لگتا ہے ہم دنیا میں ان قدموں کے نشانوں کی طرح ہے ،نہ جانے کب مٹ جایے- بقول شاعر
          راکھ ہوں پھول ہوں یا ریت پہ قدموں کے نشاں
آپ کو حق ہے مجھے جو بھی جی چاہے کہہ لے
     سمندر کی لہریں جب غصہ دکھانے کے بعد پیچھے ہٹ جاتی ہے تو سمجھ میں نہیں آتا اتنا پانی کہاں غائب ہو جاتا ہے-پھر بے شمار پرندے اپنی روزی تلاش کرتے  وہاں پہنچ جاتے ہیں-کون انہیں بتاتا ہے-خدا کی زات پر یقین آنے لگتا ہے-

    سمندر کے بیچوں بیچ زنجیرا کا قلعہ ہے –جہاں سے سدھیوں نے سالوں حکومت کی-قلعہ اس طرح بنایا گیا ہے کہ دور تک پتا ہی نہیں چلتا کے اس کا داخلہ کہاں سے ہوتا ہے-قلعہ کے 20 فیٹ کی قربت سے داخلے کا دروازہ دکھایئ پڑتا ہے-114 بروج ہیں جہاں قلعہ کی حفاظت کے لیے توپیں نصب کی گئ تھی،جو اب بھی موجود ہیں-

   قلعہ تک پہنچنے کے لیے اب بھی وہی پرانے سفینوں کا استعمال ہوتا ہے جو ہوا کے زور سے چلتے ہیں-ٹکٹ صرف 20 روپیے-
    قلعے کے دربار کی عمارت جو کسی زمانے میں 7 منزلیں ہوا کرتی تھی وہ اب صرف  ساڑھے تین منزلہ بچ گئ ہے-



        قلعے کے اندر دو میٹھے پانی کے تالاب بھی ہیں-تین مسجدیں ہیں-کسی زمانے میں ہزاروں نفوس کی بستی یہاں مشتمل تھی-شیواجی نے کوکن کے تمام قلعوں کو فتح کر لیا تھا لیکن اس قلعے کی تسخیر، نا کر پایا-شہر سے دور پہاڑ کی چوٹی پر ایک خوبصورت عید  گاہ بھی ہے جہاں سے سارے شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے-
       شہر سے چند کلو میٹر کی دوری پر عالیشان مزارات بھی ہیں جن کی تاریخ کویئ نہیں جانتا-کسم پرسی کی حالت میں ہیں-بنانے والوں نے سوچا ہوگا رہتی دنیا تک رہینگے- اف انسان کی نادانی
    جلتی بجھتی سی روشنی کے پرے
سمٹا سمٹا سا ایک مکاں تنہاں
راہ دیکھا کرے گا صدیوں تک
چھوڑ جایے گا یہ جہاں تنہاں









सोमवार, 6 अक्टूबर 2014

Pashu

                                                   اقبال عرف پا ‎شو
تم سے بچھڑے 4 سال کا طویل وقت دیکھتے  دیکھتے گزر گیا- ثنا کی شادی میں تم سے آخری ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا-اور خوش قسمتی سے وہ لمحات کیمرے میں قید ہو چکے ہیں-تمہاری  باتیں تمہاری یادیں تو ہمیشہ یاد آتی رہے گیں- بقول شاعر
‏ع  تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
    کس بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
  دادابھا‎یئ جو، اب مرحوم ہو چکے ہیں –تمہارے پاس پہنچ چکے ہے-تمہارے نام کی تشریح کویت سے لکھے ایک خط میں مزاحیہ انداز میں کچھ اس انداز میں کی تھی-پا+شو –تم نے سب سے زیادہ لطف لیا تھا-تم تھے ہی ایسے-
  تمہارا اصل نام اقبال تمہارے والد نے ڈاکٹر اقبال سے متا ‍‍‎‏ثر ہو کر رکھا تھا-اقبال یعنی خوش نصیب،اعلا مرتبے والا-تم تو تمہارے نام کی طرح تھے-
  1971 میں جس وقت میں ایس ایس سی کا امتحان پاس کر جلگاوں سے ممبئ آیا تھا،اجنبی شہر اجنبی لوگوں کے بیچ تم مجھے صحرہ میں نحلستان کی طرح محسوس ہوئے-تم تمہارہ سارہ خاندان میرے لئے ایک اطمنان ایک سہارہ بن گے‎-اماں کا وہ پیار،بہن شہناز  کی محبت،اخلاق،اشفاق کی شفقتیں،بھابھی کی عنایتیں،مہربانیاں-تکیہ واڑ کے گھر میں کسی بھی وقت پہنچ جاتا اور کئ دنوں کی بھوک  اور بے مزہ کھانوں کو بھول کر اماں بھابھی کے ہاتھ سے بنے کھانوں سے ذہنی سکون میسر آتا-
گریجوشن کے بعدمیرا پہلا جاب بھی تو مجھے Rallis India میں تمہاری معرفت ملا تھا-
    SSC میں تم میتھس میں فیل ہو گیے تھے –لیکن وہ تمہاری جافشانی تھی کے ابا کے پاس میتھس سیکھنے کرلا سے چمبور FCI Colony آیا کرتے تھے-قلاشی کا زمانہ تھا  کبھی کبھی  کرلا سے چمبور کا  طویل  سفر پیدل بھی تمہہیں طہ کرنا پڑتا-اپنی محنت اور ابا کی رہنمائ میں SSC  کا امتحان بھی تم نے پاس کر لیا-ابا کو تم نے استاد کا درجہ دیا تھا اور تمام عمر  نبھایا بھی-جاب ملنے اور مصروفیت کے باوجود بھی گاہے گاہے ابا سے ملاقات کے لیے تم آتے رہتے-کبھی طویل وقفے کی تمہاری غیر حاظری ہوجاتی تو ابا مجھ سے کہہ کر تمہیں بلوا لیتے-
  تمہاری sense of hum our کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا-تمہیں یاد ہوگا ہم نے جدائ بسنت ٹاکیز میں ساتھ ساتھ دیکھی تھی-ایک سین میں ایک چھوٹا بچہ 5 موٹے موٹے غنڈوں کی پٹائ کرتا ہے-تمہاری رگ ظرافت پھڑک اٹھی سیٹ سے اٹھ کھڑے ہویے-"ماروں سالوں کو ،اور مار "تمام ہال کی پبلک تمہاری اس حرکت پر تمہارا ساتھ دینے لگی-سیٹیاں،تالیاں اور  شور سے کان کے پردے پھٹنے لگے-
 پھر گونڈی میں کئ سال ہم پڑوسی بن  کر رہے-ساتھ ساتھ گومنا،نمازوں کی ادایگی-تمہیں مجھ سے ایک ہی شکایت تھی –تم کہا کرتے "راغب بھائ میں نے تم سے تمام اچھی عادتیں سیکھی ہیں ،صرف چایے کی عادت کے علاوہ-چاۓکی پیالی کی آدھی آدھی تقصیم کرتے وقت تمہارا تکیہ کلام تھا "انصاف کا مندر ہے یہ بھگوان کا گھر ہے"-
  انسان کا جنتی ہونے کا ‌ ‍ثبوت ہے کے وہ حلال رزق کماتے ہویے اپنی جان نچھاور کر دے- تم نے بھی ڈیوٹی کرتے اپنی جان دی ہے-انشا اللہ ،اللہ سے امید ہے کے ظرور شہید کے درجہ تک پہنچوں گے-
ع     نہ جانےمیرے بعد ان پے کیا گزری
         میں  زمانے میں چند خواب چھوڑ آیا تھا
   ماشا اللہ ارم اپنے سسرال میں خوش ہے،تم تو اب نانا بھی بن گیے ہو-رمیز MBA ،محنت اور لگن جو اپنے والد سے ورثے میں ملی ہے، کے بل بوتے پر اپنا کریر بنانے میں مصروف ہے-عبدل معیز ہوا‎ؤں میں اڑنے لگے ہے-و ہ خواب ،جو تم نے اپنی زندگی میں دیکھے تھے تمہاری اولاد ان میں حقیقت کا رنگ بھر رہی ہے-بھابھی کو بھی اللہ سلامت رکھے ،صبر جمیل عطا کرے ،تمہارے بعد تمہارے خاندان کی رہنما بن، تمہاری کمی پوری کررہی ہے-