ہارے ہویے لشکر کا سپاہی
تمھاری
یاد کے جب ذخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
بھڑ بھو نجا مطلب
بھاڑ میں ّکام کرنے والا-ایک 400 نفوس کی بستی-گجرات مھاراشٹرا بورڈر کے قریب-ریلوے اسٹیشن جہاں صرف
پسنجر سواریاں رکتی ہیں-آج 50 سال بعد بھی
ٹايم فریم میں مقید نظر آتا ہے-دنیا دیکھی ہے –لیکن بھڑبھونجے کو
دیکھنے سے دل نہیں بھرتا-
1965 کا
دور،جلگاوں شہر میں اسکول میں پڑھتے تھے-ماں
کا سایا سر سے اٹھ گیا تھا-سردی گرمی کی تعطیل ننہال میں بتانے اسی مقام بھڑبھونجا
پہنچ جاتے-تاخیر ہوتی تو ابا کے نام خطوط
شروع ہوجاتے- بڑے ماموں (ماموں میاں) بے اولاد تھے –ان کی سب عزت کرتے کويي ان کی
بات ٹال نہیں سکتا تھا-دو اور شفیق ماموں
دھولہے ماموں،گورے ماموں ہیں جو ماشاالۂ اب بھی حیات ہیں-
ماموںمیاں کا گھر
کیي کمروں پر مشتمل تھا-بڑی سی دکان،اس سے لگ کر کويل کی آواز میں چلنے
والی کک کک کرتی چکی-بھیسوں کا لمبا چوڑا
طبیلہ،بڑی ممانی جو ممانی اماں کہلاتی تھی دودھ دھو کر تپیلے میں گرم کر تی تو
بالايی کی موٹی موٹی تہیں جم جاتی تھی،ہم
دودھ پینے کے بعد تپیلا تک چاٹ کھاتے تھے-کبھیی ہم فرمایش کرتے پکوڑوں کی، تو لکڑی
کے چولہے پرممانیاں کڑاہی چڑہا دیتی جب تک جی نہیں بھرتا گرم گرم پکوڑے بنتے
رہتے-لسی،آیس کریم،چکی،جو فرمایش کردی حاضر،گھر سے کچھ دوری پر کہاں سے ایک پرانی
قبر ٹوٹی پھوٹی حالت میں کھیتوں کے بیچ دریافت ہویي باقاعدگی سے دھوم دھام سے عرس
منایا جانے لگا،عرس کو تاریخ ہمارے بھڑبھونجہ آنے پر طہ ہوتی، دیگیں چڑھتی نیاز
بنا کر پورے گاوں میں تقصیم ہوتی-اس سے فرصت ملتی تو دکان پر ماموں کا ہاتھ بٹا
دیتے-دکان کے پچھلے حصے میں کپاس کا زخیرہ ہوتا دھما چوکڑی مچاتے-فرصت ملی تو کھیت
سے مکیي کے بھٹے لا کر چولہے پر بھون کر کھاۓ جاتے-اسٹیش
کی بلڈنگ میں بھٹیا،قادر ماموں کے ساتھ مستی کرتے-جامن،آم کے درخت پر بندروں کی مانند چڑھا جاتا-گرمیوں کے مہینے میں
ایک کمرہ آموں سے ہمیشہ بھرا ہوتا جب طبیعت چاہتی آموں پر
ٹوٹ پڑتے گٹھلیوں کے ڈھیر لگ جاتے-
خاک میں میں کیا صورتیں ہونگی کے پنہاں ہو گيي
ماموں میاں پشتینی سید، شجر نصب شاہ وجیہوالدین سے جڑتا-چوڑا سینہ ،نکلتا
قد،دودھ کی طرح شفاف رنگ،پرنور چہرے پر
نیلی آنکھیں،غصہ ہوتے تو چہرہ انار کی طرح سرخ ہوجاتا،جو شاز و ناشاز ہی ہوتا-اس
بات کا تجربہ مجھے ایک روز اس وقت ہوا جب انہوں نے بلوچی پٹہانوں کو پیٹا تھا-بلوچی
سال میں ایک مرتبہ گاگلس بیچنے کے لے، تین چار خاندان کچھ روز ماموں میاں کی اجازت
سے خیمہ لگاکر ہفتہ بھر قیام کرتے،چلے
جاتے،اس سال بھی وہ لوگ خیمہ لگا اپنے کاروبار میں مصروف تھے،ایک روز ماموں میاں
کسی کام سے شہر گے تھے اس دوران ان بلوچیوں نے مارپیٹ کی ،ادیواسیوں سے بدتمیزی
کی،ماموں میاں شہر سے لوٹے انہیں پتہ چلا،اسی وقت ہاکی اسٹک لے کر تن تنہا ہٹے کٹے
بلوچیوں پر ٹوٹ پڑے وہ چپ چاپ مار کھاتے
رہے کسی نے اف نہ کی معافی مانگتے رہے- ورنہ
اندر سے موم کی طرح نرم تھے-ہم بھایؤں سے پدرانہ شفقت تھی،بے اولاد تھے ،ہم چاروں
بھایئوں کا تعارف اپنے دوستوں سے کرواتے تو زمین آسمان کے قلابے
ملا دیتے- ہم شرم سے پانی پانی ہوجاتے ـ ڈاکٹر واصف میڈکل میں داخلہ ملتے ہی ان کی نظروں میں ایم
ڈی ہوگے،میں وکیل،اور صادق بھای بی-ای کی
بجاے ایم-ای ،اور ان کے دوستوں سے اسی طرح متعارف کراتے- چونکے تعلیم حاصل کرنے سے
انہیں بے انتہا رغبت تھی اور ہم چاروں برادران اونچی تعلیم حاصل کر رہے تھے- ممانی اماں سے بے انتہا محبت تھی،اسی لیے ان کے
انتقال کے بعد ایک سال میں ان سے جا
ملے-ماموں میاں کا سیاسی رسوخ تھا-ہر آیے دن ان کے گھر ضیافتیں ہوتی،گجرات کی با رسوخ ہستیاں مدوع
ہوتی-گاوں کے سرپنچ ہوا کرتے،گاوں کے ادیواسی فرشی سلام کرتے،پیروں پر گرتے-وہ بھی
ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے-سانپ بچھو کاٹنے پر ان پر دم کرتے اور لوگوں کو افاقہ
بھی ہوجاتا-کتے پالنے کا بہت شوق تھا،ایک السیشن گھر میں لازمی تھا-نوکروں کی فوج
تھی نوریا ریوا،داجیا،جمادار، جو سلیمان
پیغمبر کے جنوں کی طرح کام میں جٹے رہتے- اس زمانے میں چوریاں بھی بہت ہوتی
تھی-گھر کی کھیت کی رکھوالی بھی ہوجاتی-اگر ٹرین پلیٹ فارم پر رکی ہوتی اور
ماموںمیاں کو گھر سے نکلنے میں دیری ہوجاتی تو- ٹرین روک لی جاتی،ان کے پہچنے پر
گارڈ نیچے اتر کر انہیں فرسٹ کلاس میں بٹھاتا ،تب ٹرین روانا ہوتی-کتنے نوجوانوں
کو انہوں نے نوکری دلوايي،ان کی ایک چٹھی میں وہ اژر تھا کے ،نہ کلکٹر ٹال سکتا
تھا نہ منسٹر،مجھے خود اس بات کا تجربہ ہے،میں فارسٹ آفیسر کا ،رٹرن ٹیسٹ پاس کرنے
کے بعد پرسنل انٹرویو میں مجھ سےپہلا سوال پوچھا گیا کے سید صاحب سے آپ کا کیا
رشتہ ہے؟ ایک بے تاج بادشاہ کی طرح حکومت کرکے وہ 2004
میں دنیا سے رخصت ہویے-
بھاگوں بھوت آیا
ان دنوں ہمارا یہ معمول تھا کہ دن بھر کی تکان اتارنے کے لۓ شام چھوٹے
ماموں جنہیں ہم گورے ماموں کہتے ہیں کے ساتھ گاوں کے کنویں پر نہانے کے لۓ جاتے-اندھیرا ہونے سے
پہلے لوٹنا ہوتا-ایک روز اتفاق سے میں رکا رہا اور آخر میں نہانے کے بعد جب سب لوگ
گھر لوٹ چکے تھے اطمنان سے ڈول میں رسا ڈال کے گھر لوٹنے لگا-حالانکے کنواں گھر سے
300 میٹر پر تھا-اندھیرہ تھا ،مجھے سر سر کی آواز اپنے پیچھے محسوس ہوئ،رونگٹے
کھڑے ہوگے-رفتار بڑھادی،سرسراہٹ اور بڑھ گئ،لگا بڑا اژدھا میرے پیچھے پڑا
ہو-بھوتوں کی کئ کہانیاں سن رکھی تھی،میں دوڑا آواز اور تیز ہو گئ-ڈول پھینک سامنے
جو مکان دکھائ پڑا اسمیں چیختے ہوے گھس
پڑا،آس پاس کے لوگ گھروں سے نکل پڑے-ماجرا بیان کرنے پر سب لوگ قندیل لاٹھیاں لے
کر دوڑ پڑے-قریب پہچنے پر پتا چلا کے رسا ڈول سے باہر آگیا تھا-جس سے سر سر کی
آواز پیدا ہو رہی تھی-
ع یادے ماضی عذاب ہے یا رب
47 سال بعد بھڑبھونجہ لوٹا-آنکھیں پتھرا گئ،دماغ ماؤف
ہوگیا-ٹوپے پھوٹے آشرم میں پڑھنے والے بچے
جج،ڈاکٹر،چیف سکریٹری،منسٹر بن گے ہیں-بڑےبڑے پولٹری فارمس،کھدانوں ،زرعی فارمس کے
مالکان بنے بیٹھے ہیں-تبلیغی جماعت کسی ایک ادیواسی کو مسلمان نہ بنا سکی،مشنری کی
پرخلوص ،ایماندار ننس نےکر دکھایا،اکژ لا
دین ادیواسی عیسائ مزہب اختیار کر چکے ہیں،ٹوٹے پھوٹے آشرم گریٹ شیفرڈ ،فاطمہ،کیلی
فورنیہ انگلش اسکول میں تبدیل ہوچکے ہیں- ماموں میاں کے سگے بھائیوں کی اولادیں
تعلیم کی روشنی سے نابلد کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں-حاکم محکوم اور محکوم حاکم
میں تبدیل ہوگے ہیں-
ماموں میاں کے گھر کے سامنے کا مہکتا باغیچہ سوکھ گیا
ہے-گھر کے سامنے کا لمبا چوڑا میدان جہاں ہم کرکٹ کھیلتے تھے،گرمیوں میں پانی چھڑک
چارپائیوں پر لیٹ کر چاندنی میں لہانے کا لطف اٹھاتے تھے بستی میں تبدیل ہوچکا ہے-نامعلوم
قبر جس کا دھوم دھام سے عرس منایا جاتا تھا، اس پر سایا کے چھتناور درخت کو کسی نے
آگ لگا کر جلا کر راکھ کر دیا تھا-
دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی
لوگوں نے میرے گھر
سے سے رستے بنا لیے
ماموں میاں کا گھر جہاں 60 یا 65 سال کا وقفہ انہوں نے گزارا ،اسکول
میں تبدیل ہو چکا ہے شاید ان کی روح کی تسکین کا سامان ہو گیا ہو،طبیلہ جوا خانہ
بن گیا ہے-گورے ماموں سکڑی سکڑائ دکان پے بیٹھے خلا میں گھورتے گراہکوں کے انتضار میں بیٹھے تھے،مجھے یوں لگا ایک زبردست طوفان نے ایک
جزیرے کو ڈبا دیا ہو،ایک چھوٹے سے ٹاپو پے ایک ہارے ہوے لشکر کا سپاہی اس انتضار
میں بیٹھا ہے کے کب ایک اونچی لہر آکر اس ٹاپو کونگل لے-
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें