بھوانو ی،رتھ
آج سے پچاس سال پہلے جلگاوں کے لوگوں کی زندگی انہھیں
تہواروں کے گرد محدود تھی-کہیں نہ کہیں حیدری تھیٹر ان تہواروں کا مرکز بن جاتا-
سید حیدر علی کا حیدری تھیٹر،
کاٹیا فیل محلے کے وسط میں واقع ہوا کرتا-نام کےلیے مراٹھی آرٹ لونی (lavni) جو تماشے کی ایک شکل ہوتی ہے-کا
مظاہرہ کرنا تھا –لیکن کھلے عام جسموں کی تجارت ہوتی-سب سے پہلے حیدر علی جو جزامی
تھے ان کی آرتی ہوتی-رنڈیاں ان کی بڑی عزت
کرتی-
پھر شروع ہوتا ناچ کا پروگرام-پہلے ایک دو گانے
مراٹھی گایے جاتے-ڈھول ،ہارمونیم،طبلہ اور بے ڈھنگے سروں پر گایے گانے پر ناچ
ہوتا-بے تکا چہرے پر ملا غازہ، ان عورتوں کو مزاحکہ خیز بنا دیتا، اوپر سے 9 واری مہاراشٹیرن کسی
ساری-شاید اس زمانے میں ایک روپیہ ٹکٹ ہوا کرتا –آس پاس کے دیہاتوںسے تھیٹر کے شوقین
ٹوٹ پڑتے-لیکن زیادہ بزنس ہوتا دسہرہ میں - جب بھوانی کا روپ دھارے لوگ ڈھول تاشوں
کے ساتھ بھیک مانگنے نکلتے-ہر دکان ہر گھر سے ہندو مسلمان کی کوئ قید نہ تھی،پیسہ
دو پیسہ کو سوغات مل جاتی-رتھ بھی انہیں دنوں نکلتا- مظبوط لکڑے سے بنا رتھ جسے موٹے موٹے رسے باندھ کر لوگ کھیچتے،رتھ
کھیچنا بھی تبرک کی طرح ہوتا، کیا ہندو کیا مسلماں سب شریک ہوتے-لوگ ایک دوسرے پر
سبقت لے جانا چاہتے-رتھ میں بال کٹوا کر کچھ پنڈت بیٹھے ہوتے،اس زمانے میں کیلوں
کی پیداوار بہت ہوتی تھی-ایک روپیے میں 16 درجن کیلےمل جاتے تھے-لوگ کیلے خرید کر
رتھ میں سوار پنڈتوں پر کیلوں کی بوچھار کر دیتے تھے-پنڈت ہاتھ میں برتن اور ڈھال
کی طرح بنی چیزوں سے بچاو کرتے-ہزاروں روپیے کے کیلے برباد ہوتے-رتھ کے پیچھے
پیچھے، میونسپل کا ٹریکٹر ان کیلوں کو جمع کر لیتا-ان دنوں جلگاوں میں 5 سینما
تھیٹر تھے ہر تھیٹر میں 6 سے 7 شو کا اہتمام ہوتا-آدھی ادھوروی فلمیں دکھایئ
جاتی-اور پھر رات میں لوگ حیدری تھیٹر پر ٹوٹ پڑتے-رنڈیوں کا ناچ اور پھر سامعین
میں سے کسی کو کوی رنڈی پسند آتی تواسے شو ختم ہونے کا انتظار کرنا پڑتا-
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें