बुधवार, 13 अगस्त 2014

BHAWANI ,RATH

                              بھوانو ی،رتھ
آج سے پچاس سال پہلے جلگاوں کے لوگوں کی زندگی انہھیں تہواروں کے گرد محدود تھی-کہیں نہ کہیں حیدری تھیٹر ان تہواروں کا  مرکز بن جاتا-
سید حیدر علی کا حیدری تھیٹر، کاٹیا فیل محلے کے وسط میں واقع ہوا کرتا-نام کےلیے مراٹھی آرٹ لونی (lavni) جو تماشے کی ایک شکل ہوتی ہے-کا مظاہرہ کرنا تھا –لیکن کھلے عام جسموں کی تجارت ہوتی-سب سے پہلے حیدر علی جو جزامی تھے ان کی آرتی ہوتی-رنڈیاں  ان کی بڑی عزت کرتی-
 پھر  شروع ہوتا ناچ کا پروگرام-پہلے ایک دو گانے مراٹھی گایے جاتے-ڈھول ،ہارمونیم،طبلہ اور بے ڈھنگے سروں پر گایے گانے پر ناچ ہوتا-بے تکا چہرے پر ملا غازہ، ان عورتوں کو مزاحکہ خیز  بنا دیتا، اوپر سے 9 واری مہاراشٹیرن کسی ساری-شاید اس زمانے میں ایک روپیہ ٹکٹ ہوا کرتا –آس پاس کے دیہاتوںسے تھیٹر کے شوقین ٹوٹ پڑتے-لیکن زیادہ بزنس ہوتا دسہرہ میں - جب بھوانی کا روپ دھارے لوگ ڈھول تاشوں کے ساتھ بھیک مانگنے نکلتے-ہر دکان ہر گھر سے ہندو مسلمان کی کوئ قید نہ تھی،پیسہ دو پیسہ کو سوغات مل جاتی-رتھ بھی انہیں دنوں نکلتا- مظبوط لکڑے سے بنا  رتھ جسے موٹے موٹے رسے باندھ کر لوگ کھیچتے،رتھ کھیچنا بھی تبرک کی طرح ہوتا، کیا ہندو کیا مسلماں سب شریک ہوتے-لوگ ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے-رتھ میں بال کٹوا کر کچھ پنڈت بیٹھے ہوتے،اس زمانے میں کیلوں کی پیداوار بہت ہوتی تھی-ایک روپیے میں 16 درجن کیلےمل جاتے تھے-لوگ کیلے خرید کر رتھ میں سوار پنڈتوں پر کیلوں کی بوچھار کر دیتے تھے-پنڈت ہاتھ میں برتن اور ڈھال کی طرح بنی چیزوں سے بچاو کرتے-ہزاروں روپیے کے کیلے برباد ہوتے-رتھ کے پیچھے پیچھے، میونسپل کا ٹریکٹر ان کیلوں کو جمع کر لیتا-ان دنوں جلگاوں میں 5 سینما تھیٹر تھے ہر تھیٹر میں 6 سے 7 شو کا اہتمام ہوتا-آدھی ادھوروی فلمیں دکھایئ جاتی-اور پھر رات میں لوگ حیدری تھیٹر پر ٹوٹ پڑتے-رنڈیوں کا ناچ اور پھر سامعین میں سے کسی کو کوی‎ رنڈی پسند آتی تواسے شو ختم ہونے کا انتظار کرنا پڑتا-

  

कोई टिप्पणी नहीं:

एक टिप्पणी भेजें