रविवार, 31 अगस्त 2014

haaare bhi to baazi jeet gaye

                                       مکرمی  ایڈیٹر 
کہانی ارسال کر رہا ہوں ، انقلاب میں اشاعت کی درخواست ہے -
راغب احمد (نیرول -نوی ممبئی)
                                            ہارے بھی تو بازی جیت گئے 
آ ج کلنٹ کی لا ش سا نتا کروز پہنچ چکی ہونگی-اور اس کی آخری رسومات ادا کی جا رہی جا  رہی ہونگی-160 کلو وزنی لاش کا تابوت اٹھا‎ئے، رشتہ دار کراہ رہے ہونگے-کلنٹ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہا ہونگا-" دیکھا بھڈوو  تیل نکال دیا نہ !"-ماں  ،بیوی بیٹیاں سوگوار بیٹھی ہونگی اور وہ دل ہی دل میں فقرے کس رہا ہونگا "بچس (کتیوں ) سے پیچھا چھوٹا"
          کلنٹ سے  پہلی ملاقات بھی بڑی ڈرامائ انداز میں ہویی تھی- ٣٠ اکتوبر ١٩٨٢ ،گلف ایر کی فلایٹ سے مجھے بمبیئ سے بحرین اور پھر دمشق جانا تھا-یہ میری زندگی کا پہلا ہوایئ سفر تھا-تیل کے کنوں پر کام کرنے کے لے مجھے ملک شام بلایا گیا تھا-پہلی بار گھر سے دور اتنا طویل سفر کرنا تھا-طبیعت پرملال تھی-اکانمک کلاس میں سیٹں ویسے بھی چھوٹی ہوتی ہے-ایک لحیم شحیم شخص کو دیکھا کے سوٹ میں ملبوس سیٹ میں پھنسا پھنسا بیٹھا سگریٹ کے مرغولے چھوڑے جا رہا ہے-تمام ایر ہوسٹس اسکے انگریزی بولنے کے انداز سے مرعوب دکھائ دی-اسکی خدمت کے لئے دوڑتی پھرتی نظر آئ-جانے اس نے کیا جادو کر دیا اسے فرسٹ کلا س میں شفٹ کر دیا گیا-
       بحرین ایرپورٹ پر 4 گھنٹے ٹرانسٹ تھا اور پھر دمشق کی فلائٹ پکڑنی تھی -میں انجان کٹے پتنگ کی طرح ڈولتا ،ڈیوٹی فری میں گھوم رہا تھا-وہی فلائٹ والا، لحیم شحیم شخص نظر آیا-میں بھی اس سے کافی مرعوب ہوچکا تھا-اس نے خود اپنا تعارف کروایا "اپن  کا نام کلنٹ مارٹن ہے ،دماش کش جانے مانگتا"-پھر بحرین سے دمشق، اور دمشق سے فیلڈ کا سفر  مانو منٹوں میں تمام ہو گیا- ہم دونوں کو ایک ہی جگہ ، عمر فیلڈ پر کام کرنا تھا اور  یہ بھی اتفاق کہ ہم دونوں روم پارٹنر بن گیے- یہ سلسلہ سات سال بعد کلنٹ کی موت پر ختم ہوا -
     کلنٹ جاپانی سومو کی طرح لحیم شحیم تھا-160 کلو کا بھاری بھرکم جسم،بھرا چہرہ،گوری رنگت،6 فٹ کا نکلتا قد-بستر پر سوتا کم کشتی کھیلتا زیادہ نظر آتا-کمرہ اسکے خراٹوں  کی آواز سے گونجتا رہتا-کمرے میں ہمیشہ ایک بے تریتبی چھائ رہتی- لباس کرسی پر ،بدبودار جرابیں ٹیبل لیمپ پر،انڈرویر فرش پر-بیت الخلا  میں اژدہے کی طرح  پھنکارتا -خود کلامی کرتے ہو‎ۓ چھوٹے چھوٹے قدموں سےبطخ کی چال چلتا -خوراک بھی 160کلو وزنی جسم کے متناسب-کھانے بیٹھتا تو دیو مالائ راکشسوں کی یاد تازہ کر دیتا-مجھے لگتا کھانے کے لیے جی  رہا ہو-
     اس کےکردار کی خوبی تھی، مزاج میں بچپنہ -ہم 200 ہندوستانیوں کے بیچ بے حد مقبول تھا-12 گھنٹے مسلسل ڈیوٹی ہوا کرتی-کبھی چلچلاتی دھوپ تو کبھی برفباری تو کبھی غبار بھرا طوفاں -اس پر گھر سے دوری-چاروں جانب بیابان و ریگستان-لیکن کلنٹ کے ہوتے ہویے ہر محفل قہقہ زار-ڈیوٹی سے لوٹنے کے بعد تمام لوگ اپنے اپنے کمروں میں بند ہوجاتے،لیکن کلنٹ کہاں چھوڑنے والا، کبھی چلا پکار کر، کبھی دروازوں پے ٹھوکریں مار کر لوگوں کو کمروں سے نکلوا کر اکٹھا کرتا-سال میں 4 مرتبہ اپنی سال گرہ کا جشن دھوم دھام سے مناتا،لزیز کھانے بنانے میں ماہر کلنٹ کبھی سیخ کباب تو کبھی مرغ مسّلم ،تو کبھی بریانی بناتا-کبھی کبھی کرکٹ ،فٹ بال کے مقابلے منعقد کرواتا-خود کبھی امپایر بنتا ،کبھی جوکروں  کی طرح نیکر پہنے فیلڈنگ کرتا-کبھی اس مزے دار انداز میں کامنٹری کرتا ،کے لوگوں کے پیٹ میں بل پڑ جاتے-ساتھیوں کے مثا یٰل حل   کرنے میں اسے بڑا لطف آتا، اکژ اس بات پے  اانتظامیہ  بھی الجھ پڑتا                                                  
     فرصت کے اوقات میں اکژ روم میں پرانے وقتوں کے قصے چھیڑ بیٹھتا-20 سال پرانی بات ہے جب وہ ایک بہترین ایتھلٹ ہوا کرتا تھا-پہاڑ جیسے جسم کو دیکھ کر کون یقین کرتا-پرانے اخبار کے تراشے اس نے جمع کر رکھے تھےدیکھ کر یقین کرنا پڑتا-چھریرے بدن کا کلنٹ وکٹری اسٹینڈ پر کپ اٹھایے ہویے ،مایک پر تقریر کرتے ہویے موڈلنگ کرتے ہوے -کبھی اس کی زہنی رو بہک جاتی –شراب کے تین چار جام پینے کے بعد ماریا کی یاد تازہ ہو جاتی چنگھاڑنے لگتا " میری ماں بچ (کتیا) ہے یار، -میں آخر تک اس پہیلی  کو حل نہیں کر پایا -چھوٹی جاتے وقت ماریا اس کے بچوں کے لیے بیش  قیمت تحا یف ضرور ڈیوٹی فری سے خریدتا-

      جس طرح اونٹ کی کوئ کل سیدھی نہیں ہوتی کلنٹ کا کردار بھی  پیچدہ  تھا-شام (دمشق ) آنے کے بعد اس نے کینڈین شہرت اختیار کر لی-کہنے لگا" ماریا کی بے چارگی نہیں دیکھی جاتی یار"-چھٹیوں میں زیادہ تر وقت کینڈہ میں بتاتا-ایک سال کے اندر اندر ہی اس نے ایک عمر رسیدہ مطلوقہ سے شادی بھی رچا لی جو کسی کمپنی میں سکریٹری تھی-وہ جہیز میں اپنے ساتھ دو جوان بیٹیاں بھی لے آیئ-بقول کلنٹ کے اس کی زندگی میں 3 بچس (کتیوں ) کا اظا فہ ہو گیا-لیکن شان سے کہتاalp Switzerland A کی پہاڑیوں میں ہنی مون منا کر آیا ہوں-بیوی ہندوستان میں رہتی یہ کینڈہ میں کیوں ؟ کويئ پوچھتا تو اس کی شامت آجاتی-گالی گلوچ پر اتر آتا-
     فیلڈ پربھٹ ٹکنیشین کی موت، وہ بھی حرکت قلب بند ہونے سے-ہم سب ساتھیوں کو بے حد اداس کر دیا-ہر کویئ اپنی صحت کے تعلق سے فکر مند ہوگیا-کلینک میں با قاعدگی سے بلڈ پریشر ،شوگر چیک کی جانے لگی-جم میں رش بڑھ گیا-لوگ باقاعدہ سویمنگ پول بھی آنے لگے-کلنٹ بھی باقاعدگی سے صبح کی سیر کو جانے لگا-ہانپتے کانپتے 3 کلو میٹر کی دوری  چینوٹی کی رفتار سے طہ کرتا-اس کا بلڈ پریشر یکایک بڑھنے لگا-خون میں شکر بھی بڑھ گیئ-
    دسمبر کا مہینہ ویسے بھی سیریا (شام) میں سورج کبھی کبھی نظر آتا ہے-ابر آلود اداس دن تھا-کلنٹ ہانپتے کانپتے لوٹا-کینٹین میں داخل ہوا تو چند گورے سپروایزور اسے دیکھ کر ہنس پڑے-اس کا پارہ آسمان پر چڑھ گیا-200 ڈالر جیب میں پڑے تھے،میز پر پٹک دیے-"میں کرسمس تک زندہ رہونگا تم اپنی زندگی کی گارنٹی دے سکتے ہو"-انگریز سپروایازرس کو مانو سانپ سونگھ گیا-میں کانپ گیا،کلنٹ کی جیت کے لیے دعا مانگنے لگا-

       کرمس کے ایک دن پہلے  کلنٹ حسب معمول زور شور سے رات کی  پارٹی کی تیاریوں میں مصروف تھا-دوپہر کو لنچ کرکے  ،قیولولہ کرنے روم لوٹے-5 منٹ بعد دیکھا کلنٹ بے چین تھا-اسے سانس لینے میں تکلیف ہو رہی تھی-ایمبولنس  منگوایئ -میل نرس کے پہنچنے سے پہلے پہلے حرکت قلب بند ہوگیی ، اسکی موت واقع ہو گیئ-کرسمس کی رات کا جشن کلنٹ کا انتطار کرتا رہا-ہم سب تمام رات لاش کے قریب سوگوار بیٹھے رہے-پہلی بار گوروں کو شرط جیت کر ملول مغموم دیکھا -
      کلنٹ کی شرارت بھری  آواز کانوں میں گونجتی محسوس ہویی "گاڈ اپن کو ایک دن کی زندگی مل گیی  ہوتی تو تیرا کیا بگڑتا ، بھڈ وں گوروں سے شرط جیت تو جاتا "  

बुधवार, 13 अगस्त 2014

BHAWANI ,RATH

                              بھوانو ی،رتھ
آج سے پچاس سال پہلے جلگاوں کے لوگوں کی زندگی انہھیں تہواروں کے گرد محدود تھی-کہیں نہ کہیں حیدری تھیٹر ان تہواروں کا  مرکز بن جاتا-
سید حیدر علی کا حیدری تھیٹر، کاٹیا فیل محلے کے وسط میں واقع ہوا کرتا-نام کےلیے مراٹھی آرٹ لونی (lavni) جو تماشے کی ایک شکل ہوتی ہے-کا مظاہرہ کرنا تھا –لیکن کھلے عام جسموں کی تجارت ہوتی-سب سے پہلے حیدر علی جو جزامی تھے ان کی آرتی ہوتی-رنڈیاں  ان کی بڑی عزت کرتی-
 پھر  شروع ہوتا ناچ کا پروگرام-پہلے ایک دو گانے مراٹھی گایے جاتے-ڈھول ،ہارمونیم،طبلہ اور بے ڈھنگے سروں پر گایے گانے پر ناچ ہوتا-بے تکا چہرے پر ملا غازہ، ان عورتوں کو مزاحکہ خیز  بنا دیتا، اوپر سے 9 واری مہاراشٹیرن کسی ساری-شاید اس زمانے میں ایک روپیہ ٹکٹ ہوا کرتا –آس پاس کے دیہاتوںسے تھیٹر کے شوقین ٹوٹ پڑتے-لیکن زیادہ بزنس ہوتا دسہرہ میں - جب بھوانی کا روپ دھارے لوگ ڈھول تاشوں کے ساتھ بھیک مانگنے نکلتے-ہر دکان ہر گھر سے ہندو مسلمان کی کوئ قید نہ تھی،پیسہ دو پیسہ کو سوغات مل جاتی-رتھ بھی انہیں دنوں نکلتا- مظبوط لکڑے سے بنا  رتھ جسے موٹے موٹے رسے باندھ کر لوگ کھیچتے،رتھ کھیچنا بھی تبرک کی طرح ہوتا، کیا ہندو کیا مسلماں سب شریک ہوتے-لوگ ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے-رتھ میں بال کٹوا کر کچھ پنڈت بیٹھے ہوتے،اس زمانے میں کیلوں کی پیداوار بہت ہوتی تھی-ایک روپیے میں 16 درجن کیلےمل جاتے تھے-لوگ کیلے خرید کر رتھ میں سوار پنڈتوں پر کیلوں کی بوچھار کر دیتے تھے-پنڈت ہاتھ میں برتن اور ڈھال کی طرح بنی چیزوں سے بچاو کرتے-ہزاروں روپیے کے کیلے برباد ہوتے-رتھ کے پیچھے پیچھے، میونسپل کا ٹریکٹر ان کیلوں کو جمع کر لیتا-ان دنوں جلگاوں میں 5 سینما تھیٹر تھے ہر تھیٹر میں 6 سے 7 شو کا اہتمام ہوتا-آدھی ادھوروی فلمیں دکھایئ جاتی-اور پھر رات میں لوگ حیدری تھیٹر پر ٹوٹ پڑتے-رنڈیوں کا ناچ اور پھر سامعین میں سے کسی کو کوی‎ رنڈی پسند آتی تواسے شو ختم ہونے کا انتظار کرنا پڑتا-

  

रविवार, 3 अगस्त 2014

Hare huwe lashkar ka sipahi

                                ہارے ہویے لشکر کا سپاہی                                                    
             تمھاری یاد کے جب ‏‎‌‌‍‍ذخم بھرنے لگتے ہیں
     کسی بہہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
 بھڑ بھو نجا مطلب بھاڑ میں ‏‍‎ّ‏‎‌‍‏کام کرنے والا-ایک 400 نفوس کی بستی-گجرات مھاراشٹرا  بورڈر کے قریب-ریلوے اسٹیشن جہاں صرف پسنجر  سواریاں رکتی ہیں-آج 50 سال بعد بھی ٹايم  فریم میں  مقید  نظر   آتا ہے-دنیا دیکھی ہے –لیکن بھڑبھونجے کو دیکھنے سے دل نہیں بھرتا-
   1965 کا دور،جلگاوں شہر میں اسکول میں  پڑھتے تھے-ماں کا سایا سر سے اٹھ گیا تھا-سردی گرمی کی تعطیل ننہال میں بتانے اسی مقام بھڑبھونجا پہنچ جاتے-تاخیر ہوتی تو ابا کے نام  خطوط شروع ہوجاتے- بڑے ماموں (ماموں میاں) بے اولاد تھے –ان کی سب عزت کرتے کويي ان کی بات ٹال نہیں سکتا تھا-دو  اور شفیق ماموں دھولہے ماموں،گورے ماموں ہیں جو ماشاالۂ اب بھی حیات ہیں-
  ماموںمیاں  کا گھر   کیي کمروں پر مشتمل تھا-بڑی سی دکان،اس سے لگ کر کويل کی آواز میں چلنے والی کک کک کرتی چکی-بھیسوں کا لمبا  چوڑا طبیلہ،بڑی ممانی جو ممانی اماں کہلاتی تھی دودھ دھو کر تپیلے میں گرم کر تی تو بالايی کی موٹی موٹی تہیں  جم جاتی تھی،ہم دودھ پینے کے بعد تپیلا تک چاٹ کھاتے تھے-کبھیی ہم فرمایش کرتے پکوڑوں کی، تو لکڑی کے چولہے پرممانیاں کڑاہی چڑہا دیتی جب تک جی نہیں بھرتا گرم گرم پکوڑے بنتے رہتے-لسی،آیس کریم،چکی،جو فرمایش کردی حاضر،گھر سے کچھ دوری پر کہاں سے ایک پرانی قبر ٹوٹی پھوٹی حالت میں کھیتوں کے بیچ دریافت ہویي باقاعدگی سے دھوم دھام سے عرس منایا جانے لگا،عرس کو تاریخ ہمارے بھڑبھونجہ آنے پر طہ ہوتی، دیگیں چڑھتی نیاز بنا کر پورے گاوں میں تقصیم ہوتی-اس سے فرصت ملتی تو دکان پر ماموں کا ہاتھ بٹا دیتے-دکان کے پچھلے حصے میں کپاس کا زخیرہ ہوتا دھما چوکڑی مچاتے-فرصت ملی تو کھیت سے مکیي کے بھٹے لا کر چولہے پر بھون کر کھاۓ جاتے-اسٹیش کی بلڈنگ میں بھٹیا،قادر ماموں کے ساتھ مستی کرتے-جامن،آم کے درخت پر  بندروں کی مانند چڑھا جاتا-گرمیوں کے مہینے میں ایک کمرہ آموں سے ہمیشہ بھرا ہوتا جب طبیعت چاہتی آموں پر ٹوٹ پڑتے گٹھلیوں کے ڈھیر لگ جاتے-
خاک میں میں کیا صورتیں ہونگی کے پنہاں ہو گيي
ماموں میاں پشتینی سید، شجر نصب  شاہ وجیہوالدین سے جڑتا-چوڑا سینہ ،نکلتا قد،دودھ کی طرح شفاف رنگ،پرنور  چہرے پر نیلی آنکھیں،غصہ ہوتے تو چہرہ انار کی طرح سرخ ہوجاتا،جو شاز و ناشاز ہی ہوتا-اس بات کا تجربہ مجھے ایک روز اس وقت ہوا جب انہوں نے بلوچی پٹہانوں کو پیٹا تھا-بلوچی سال میں ایک مرتبہ گاگلس بیچنے کے لے، تین چار خاندان کچھ روز ماموں میاں کی اجازت سے  خیمہ لگاکر ہفتہ بھر قیام کرتے،چلے جاتے،اس سال بھی وہ لوگ خیمہ لگا اپنے کاروبار میں مصروف تھے،ایک روز ماموں میاں کسی کام سے شہر گے تھے اس دوران ان بلوچیوں نے مارپیٹ کی ،ادیواسیوں سے بدتمیزی کی،ماموں میاں شہر سے لوٹے انہیں پتہ چلا،اسی وقت ہاکی اسٹک لے کر تن تنہا ہٹے کٹے بلوچیوں پر ٹوٹ پڑے وہ  چپ چاپ مار کھاتے رہے کسی نے اف نہ کی معافی مانگتے رہے-  ورنہ اندر سے موم کی طرح نرم تھے-ہم بھایؤں سے پدرانہ شفقت تھی،بے اولاد تھے ،ہم چاروں بھایئوں کا  تعارف  اپنے دوستوں سے کرواتے تو زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے- ہم شرم سے پانی پانی ہوجاتے ـ ڈاکٹر واصف میڈکل میں داخلہ ملتے ہی ان کی نظروں میں ایم ڈی  ہوگے،میں وکیل،اور صادق بھای بی-ای کی بجاے ایم-ای ،اور ان کے دوستوں سے اسی طرح متعارف کراتے- چونکے تعلیم حاصل کرنے سے انہیں بے انتہا رغبت تھی اور ہم چاروں برادران اونچی تعلیم حاصل کر رہے تھے-   ممانی اماں سے بے انتہا محبت تھی،اسی لیے ان کے انتقال  کے بعد ایک سال میں ان سے جا ملے-ماموں میاں کا سیاسی رسوخ تھا-ہر آیے دن ان کے گھر   ضیافتیں ہوتی،گجرات کی با رسوخ ہستیاں مدوع ہوتی-گاوں کے سرپنچ ہوا کرتے،گاو‎ں کے ادیواسی فرشی سلام کرتے،پیروں پر گرتے-وہ بھی ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے-سانپ بچھو کاٹنے پر ان پر دم کرتے اور لوگوں کو افاقہ بھی ہوجاتا-کتے پالنے کا بہت شوق تھا،ایک السیشن گھر میں لازمی تھا-نوکروں کی فوج تھی  نوریا ریوا،داجیا،جمادار، جو سلیمان پیغمبر کے جنوں کی طرح کام میں جٹے رہتے- اس زمانے میں چوریاں بھی بہت ہوتی تھی-گھر کی کھیت کی رکھوالی بھی ہوجاتی-اگر ٹرین پلیٹ فارم پر رکی ہوتی اور ماموںمیاں کو گھر سے نکلنے میں دیری ہوجاتی تو- ٹرین روک لی جاتی،ان کے پہچنے پر گارڈ نیچے اتر کر انہیں فرسٹ کلاس میں بٹھاتا ،تب ٹرین روانا ہوتی-کتنے نوجوانوں کو انہوں نے نوکری دلوايي،ان کی ایک چٹھی میں وہ ا‍‌ژر تھا کے ،نہ کلکٹر ٹال سکتا تھا نہ منسٹر،مجھے خود اس بات کا تجربہ ہے،میں فارسٹ آفیسر کا ،رٹرن ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد پرسنل انٹرویو میں مجھ سےپہلا سوال پوچھا گیا کے سید صاحب سے آپ کا کیا رشتہ ہے؟    ایک بے تاج بادشاہ کی طرح حکومت کرکے وہ 2004 میں دنیا سے رخصت ہویے-
بھاگوں بھوت آیا
ان دنوں ہمارا یہ معمول تھا کہ دن بھر کی تکان اتارنے کے لۓ شام چھوٹے ماموں جنہیں ہم گورے ماموں کہتے ہیں کے ساتھ گاوں کے کنویں پر نہانے کے ل‎‎ۓ جاتے-اندھیرا ہونے سے پہلے لوٹنا ہوتا-ایک روز اتفاق سے میں رکا رہا اور آخر میں نہانے کے بعد جب سب لوگ گھر لوٹ چکے تھے اطمنان سے ڈول میں رسا ڈال کے گھر لوٹنے لگا-حالانکے کنواں گھر سے 300 میٹر پر تھا-اندھیرہ تھا ،مجھے سر سر کی آواز اپنے پیچھے محسوس ہو‎ئ،رونگٹے کھڑے ہوگے-رفتار بڑھادی،سرسراہٹ اور بڑھ گئ،لگا بڑا ا‎‌‍‏ژدھا میرے پیچھے پڑا ہو-بھوتوں کی کئ کہانیاں سن رکھی تھی،میں دوڑا آواز اور تیز ہو گئ-ڈول پھینک سامنے جو مکان دکھائ پڑا اسمیں  چیختے ہوے گھس پڑا،آس پاس کے لوگ گھروں سے نکل پڑے-ماجرا بیان کرنے پر سب لوگ قندیل لاٹھیاں لے کر دوڑ پڑے-قریب پہچنے پر پتا چلا کے رسا ڈول سے باہر آگیا تھا-جس سے سر سر کی آواز پیدا ہو رہی تھی-
ع یادے ماضی عذاب ہے یا رب
47 سال بعد بھڑبھونجہ لوٹا-آنکھیں پتھرا گئ،دماغ ما‏ؤف ہوگیا-ٹوپے پھوٹے آشرم  میں پڑھنے والے بچے جج،ڈاکٹر،چیف سکریٹری،منسٹر بن گے ہیں-بڑےبڑے پولٹری فارمس،کھدانوں ،زرعی فارمس کے مالکان بنے بیٹھے ہیں-تبلیغی جماعت کسی ایک ادیواسی کو مسلمان نہ بنا سکی،مشنری کی پرخلوص ،ایماندار ننس  نےکر دکھایا،اکژ لا دین ادیواسی عیسائ مزہب اختیار کر چکے ہیں،ٹوٹے پھوٹے آشرم گریٹ شیفرڈ ،فاطمہ،کیلی فورنیہ انگلش اسکول میں تبدیل ہوچکے ہیں- ماموں میاں کے سگے بھائیوں کی اولادیں تعلیم کی روشنی سے نابلد کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں-حاکم محکوم اور محکوم حاکم میں تبدیل ہوگے ہیں-
ماموں میاں کے گھر کے سامنے کا مہکتا باغیچہ سوکھ گیا ہے-گھر کے سامنے کا لمبا چوڑا میدان جہاں ہم کرکٹ کھیلتے تھے،گرمیوں میں پانی چھڑک چارپائیوں پر لیٹ کر چاندنی میں لہانے کا لطف اٹھاتے تھے بستی میں تبدیل ہوچکا ہے-نامعلوم قبر جس کا دھوم دھام سے عرس منایا جاتا تھا، اس پر سایا کے چھتناور درخت کو کسی نے آگ لگا کر جلا کر راکھ کر دیا تھا-
دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی
لوگوں نے میرے گھر  سے سے رستے بنا لیے
ماموں میاں کا گھر  جہاں 60 یا 65 سال کا وقفہ انہوں نے گزارا ،اسکول میں تبدیل ہو چکا ہے شاید ان کی روح کی تسکین کا سامان ہو گیا ہو،طبیلہ جوا خانہ بن گیا ہے-گورے ماموں سکڑی سکڑائ دکان پے بیٹھے خلا  میں گھورتے گراہکوں کے انتضار میں  بیٹھے تھے،مجھے یوں لگا ایک زبردست طوفان نے ایک جزیرے کو ڈبا دیا ہو،ایک چھوٹے سے ٹاپو پے ایک ہارے ہوے لشکر کا سپاہی اس انتضار میں بیٹھا ہے کے کب ایک اونچی لہر آکر اس ٹاپو کونگل لے-