مکرمی ایڈیٹر
کہانی ارسال کر رہا ہوں ، انقلاب میں اشاعت کی درخواست ہے -
راغب احمد (نیرول -نوی ممبئی)
ہارے بھی تو بازی جیت گئے
آ ج کلنٹ کی لا ش سا نتا کروز پہنچ چکی ہونگی-اور اس کی
آخری رسومات ادا کی جا رہی جا رہی
ہونگی-160 کلو وزنی لاش کا تابوت اٹھائے، رشتہ دار کراہ رہے ہونگے-کلنٹ ہنسی سے
لوٹ پوٹ ہورہا ہونگا-" دیکھا بھڈوو تیل نکال دیا نہ !"-ماں ،بیوی بیٹیاں سوگوار بیٹھی ہونگی اور وہ دل ہی
دل میں فقرے کس رہا ہونگا "بچس (کتیوں ) سے پیچھا چھوٹا"
کلنٹ سے پہلی ملاقات بھی بڑی ڈرامائ انداز میں ہویی تھی- ٣٠ اکتوبر ١٩٨٢ ،گلف ایر کی فلایٹ سے مجھے بمبیئ سے بحرین اور پھر دمشق جانا تھا-یہ میری زندگی
کا پہلا ہوایئ سفر تھا-تیل کے کنوں پر کام کرنے کے لے مجھے ملک شام بلایا گیا
تھا-پہلی بار گھر سے دور اتنا طویل سفر کرنا تھا-طبیعت پرملال تھی-اکانمک کلاس میں
سیٹں ویسے بھی چھوٹی ہوتی ہے-ایک لحیم شحیم شخص کو دیکھا کے سوٹ میں ملبوس سیٹ میں
پھنسا پھنسا بیٹھا سگریٹ کے مرغولے چھوڑے جا رہا ہے-تمام ایر ہوسٹس اسکے انگریزی
بولنے کے انداز سے مرعوب دکھائ دی-اسکی خدمت کے لئے دوڑتی پھرتی نظر آئ-جانے اس نے
کیا جادو کر دیا اسے فرسٹ کلا س میں شفٹ کر دیا گیا-
بحرین ایرپورٹ پر 4 گھنٹے ٹرانسٹ تھا اور پھر دمشق کی فلائٹ پکڑنی تھی -میں انجان کٹے پتنگ کی
طرح ڈولتا ،ڈیوٹی فری میں گھوم رہا تھا-وہی فلائٹ والا، لحیم شحیم شخص نظر آیا-میں بھی اس سے
کافی مرعوب ہوچکا تھا-اس نے خود اپنا تعارف کروایا "اپن کا نام کلنٹ مارٹن ہے ،دماش کش جانے
مانگتا"-پھر بحرین سے دمشق، اور دمشق سے فیلڈ کا سفر مانو منٹوں میں تمام ہو گیا- ہم دونوں
کو ایک ہی جگہ ، عمر فیلڈ پر کام کرنا تھا اور یہ بھی
اتفاق کہ ہم دونوں روم پارٹنر بن گیے- یہ سلسلہ سات سال بعد کلنٹ کی موت پر
ختم ہوا -
کلنٹ جاپانی
سومو کی طرح لحیم شحیم تھا-160 کلو کا بھاری بھرکم جسم،بھرا چہرہ،گوری رنگت،6 فٹ
کا نکلتا قد-بستر پر سوتا کم کشتی کھیلتا زیادہ نظر آتا-کمرہ اسکے خراٹوں کی آواز سے گونجتا رہتا-کمرے میں ہمیشہ ایک بے
تریتبی چھائ رہتی- لباس کرسی پر ،بدبودار جرابیں ٹیبل لیمپ پر،انڈرویر فرش پر-بیت
الخلا میں اژدہے کی طرح پھنکارتا -خود
کلامی کرتے ہوۓ چھوٹے چھوٹے قدموں سےبطخ کی چال چلتا -خوراک بھی 160کلو
وزنی جسم کے متناسب-کھانے بیٹھتا تو دیو مالائ راکشسوں کی یاد تازہ کر دیتا-مجھے
لگتا کھانے کے لیے جی رہا ہو-
اس کےکردار کی خوبی تھی، مزاج میں بچپنہ -ہم 200 ہندوستانیوں کے بیچ بے حد مقبول تھا-12 گھنٹے مسلسل ڈیوٹی ہوا
کرتی-کبھی چلچلاتی دھوپ تو کبھی برفباری تو کبھی غبار بھرا طوفاں -اس پر گھر سے دوری-چاروں جانب بیابان و
ریگستان-لیکن کلنٹ کے ہوتے ہویے ہر محفل قہقہ زار-ڈیوٹی سے لوٹنے کے بعد تمام لوگ
اپنے اپنے کمروں میں بند ہوجاتے،لیکن کلنٹ کہاں چھوڑنے والا، کبھی چلا پکار کر، کبھی دروازوں پے ٹھوکریں مار کر لوگوں کو کمروں سے نکلوا کر اکٹھا کرتا-سال میں 4
مرتبہ اپنی سال گرہ کا جشن دھوم دھام سے مناتا،لزیز کھانے بنانے میں ماہر کلنٹ
کبھی سیخ کباب تو کبھی مرغ مسّلم ،تو کبھی بریانی بناتا-کبھی کبھی کرکٹ ،فٹ بال کے
مقابلے منعقد کرواتا-خود کبھی امپایر بنتا ،کبھی جوکروں کی طرح نیکر پہنے فیلڈنگ کرتا-کبھی اس مزے دار
انداز میں کامنٹری کرتا ،کے لوگوں کے پیٹ میں بل پڑ جاتے-ساتھیوں کے مثا یٰل حل کرنے
میں اسے بڑا لطف آتا، اکژ اس بات پے اانتظامیہ بھی الجھ پڑتا
فرصت کے اوقات میں اکژ روم میں پرانے وقتوں
کے قصے چھیڑ بیٹھتا-20 سال پرانی بات ہے جب وہ ایک بہترین ایتھلٹ ہوا کرتا تھا-پہاڑ جیسے جسم
کو دیکھ کر کون یقین کرتا-پرانے اخبار کے تراشے اس نے جمع کر رکھے تھےدیکھ کر یقین
کرنا پڑتا-چھریرے بدن کا کلنٹ وکٹری اسٹینڈ پر کپ اٹھایے ہویے ،مایک پر
تقریر کرتے ہویے موڈلنگ کرتے ہوے -کبھی اس کی زہنی رو بہک
جاتی –شراب کے تین چار جام پینے کے بعد ماریا کی یاد تازہ ہو جاتی چنگھاڑنے لگتا
" میری ماں بچ (کتیا) ہے یار، -میں آخر تک اس پہیلی کو حل نہیں کر پایا -چھوٹی جاتے وقت ماریا اس کے بچوں کے لیے بیش قیمت تحا یف ضرور ڈیوٹی فری سے خریدتا-
جس طرح اونٹ
کی کوئ کل سیدھی نہیں ہوتی کلنٹ کا کردار بھی
پیچدہ تھا-شام (دمشق ) آنے کے بعد اس نے کینڈین شہرت اختیار کر لی-کہنے
لگا" ماریا کی بے چارگی نہیں دیکھی جاتی یار"-چھٹیوں میں زیادہ تر وقت
کینڈہ میں بتاتا-ایک سال کے اندر اندر ہی اس نے ایک عمر رسیدہ مطلوقہ سے شادی بھی
رچا لی جو کسی کمپنی میں سکریٹری تھی-وہ جہیز میں اپنے ساتھ دو جوان بیٹیاں بھی لے
آیئ-بقول کلنٹ کے اس کی زندگی میں 3 بچس (کتیوں ) کا اظا فہ ہو گیا-لیکن شان سے
کہتاalp Switzerland A کی پہاڑیوں میں ہنی مون منا کر آیا ہوں-بیوی
ہندوستان میں رہتی یہ کینڈہ میں کیوں ؟ کويئ پوچھتا تو اس کی شامت آجاتی-گالی گلوچ پر اتر
آتا-
فیلڈ پربھٹ
ٹکنیشین کی موت، وہ بھی حرکت قلب بند ہونے سے-ہم سب ساتھیوں کو بے حد اداس کر
دیا-ہر کویئ اپنی صحت کے تعلق سے فکر مند ہوگیا-کلینک میں با قاعدگی سے بلڈ پریشر
،شوگر چیک کی جانے لگی-جم میں رش بڑھ گیا-لوگ باقاعدہ سویمنگ پول بھی آنے لگے-کلنٹ
بھی باقاعدگی سے صبح کی سیر کو جانے لگا-ہانپتے کانپتے 3 کلو میٹر کی دوری چینوٹی کی رفتار سے طہ کرتا-اس کا بلڈ پریشر
یکایک بڑھنے لگا-خون میں شکر بھی بڑھ گیئ-
دسمبر کا مہینہ
ویسے بھی سیریا (شام) میں سورج کبھی کبھی نظر آتا ہے-ابر آلود اداس دن تھا-کلنٹ
ہانپتے کانپتے لوٹا-کینٹین میں داخل ہوا تو چند گورے سپروایزور اسے دیکھ کر ہنس
پڑے-اس کا پارہ آسمان پر چڑھ گیا-200 ڈالر جیب میں پڑے تھے،میز پر پٹک دیے-"میں
کرسمس تک زندہ رہونگا تم اپنی زندگی کی گارنٹی دے سکتے ہو"-انگریز سپروایازرس
کو مانو سانپ سونگھ گیا-میں کانپ گیا،کلنٹ کی جیت کے لیے دعا مانگنے لگا-
کرمس کے ایک دن پہلے کلنٹ حسب معمول زور شور سے رات کی پارٹی کی تیاریوں میں مصروف تھا-دوپہر کو لنچ کرکے ،قیولولہ
کرنے روم لوٹے-5 منٹ بعد دیکھا کلنٹ بے چین تھا-اسے سانس لینے میں تکلیف
ہو رہی تھی-ایمبولنس منگوایئ -میل نرس کے پہنچنے سے پہلے پہلے حرکت قلب بند ہوگیی ، اسکی موت واقع ہو
گیئ-کرسمس کی رات کا جشن کلنٹ کا انتطار کرتا رہا-ہم سب تمام رات لاش کے قریب
سوگوار بیٹھے رہے-پہلی بار گوروں کو شرط جیت کر ملول مغموم دیکھا -
کلنٹ
کی شرارت بھری آواز کانوں میں گونجتی محسوس ہویی "گاڈ اپن کو ایک دن کی زندگی مل گیی ہوتی تو تیرا کیا بگڑتا ، بھڈ وں گوروں سے شرط جیت تو جاتا "