بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیداور پیدا
١٩٧٥-١٩٧٧ کی بیچ سے مہاراشٹر کالج سے بی ایس سی کی پڑھائی کی جو مہاراشٹر کالج کا سنہری دور تھا -میٹھا والا ،پرنسپل منشی ،کوکشیوالا ،،پروفیسر مالوستے ،پروفیسر جاوید سر کالج کے روح رواں ہوا کرتے -مہاراشٹرا کالج میں ان دنو ہمیشہ گہما گہمی رہا کرتی -مہاراشٹرا چیف منسٹر ایس بی چوان ،کشمیر کے وزیر آلہ شیر کشمیر عبدللہ ،رفیق زکریا جیسے معروف سیاست داانو کی آمد تو ہوتی تھی -ادبی محفلیں ،مشا ارے ،شام طنز مزاح ،شام افسانہ کی گرم گرم محفلیں منعقد ہوتی -فیض احمد فیض ،کرشن چندر خواجہ احمد عبّاس ،عصمت چغتائی ان محفلوں میں شریک ہوتے اور پروفیسر جاوید ان پروگرام کی خوبصورت نظامت کرتے
مجھے یاد ہے ال شےندڑ تھیٹر میں انگلش فلموں کی نمایش ہوتی تھی اور تھیٹر پر اردو ترجمے کے ساتھ عریاں پوسترر بھی ڈسپلے کے جاتے تھے -جاوید سر اور منشی سر ان پوسٹرز کو نکلوانے میں پیش پیش رہا کرتے تھے -
کالج انول دے میں امجد خان ،جاوید اختر ،بلراج سہنی کو میں نے شریک ہوتے دیکھا تھا -جاوید سر منشی کا اینا رسوخ تھا -
جاوید سر میتھس کے پروفیسر تھے بدی سلیس انداز میں وہ پڑھاتے تھے -انکا ایک جملہ بھولیے نہیں بھولتا "زبان سے نکلی بات کمان سے نکلا تیر کبھی واپس نہیں آتے اس لئے سنبھال کر گفتگو کرنی چاہیے
پروفیسر جاوید سر نے دو بار گوونڈی ،چیتا کیمپ سے الیکشن بھری اکثریت سے جیتا -مہاراشٹرا کیبنٹ مے وزیر تعلیم بھی رہے -انتقال سے پہلے پہلے ممبئی نیی ممبئی میں کوللیجو اسکولوں کا جال بھی بچھا کر گئے
میری بیٹی ثنا کو سٹرلنگ کالج ایم بی اے میں داخلے کے وقت ان سے ملاقات کی تھی حیرت ہے انو ہونے مجھے ٣٥ سال کے بعد بھی پہچان لیا مہذب لہجے مے کہا "غالیبن تم میرے طالب علم رہ چکے ہو "
پروفیسر جاوید سر نے ہم جیسے نہ جانے کتنے قوم کے بچوں کا کریر روشن کنے میں مدد کی ہوگی -
الله انکو اپنی جوارے رحمت میں جگه عطا کرے انکے درجات بلند کرے آمین
منوں متی کے نیچے دب گیا وہ
ہمارے دل سے لیکن کب گیا وہ