انجام اسکے ہاتھ ہے، آغاز کرکے دیکھ
بھیگے ھوۓ پروں سے پرواز کرکے دیکھ
مرکز فلاح کی بھیگے پروں سے الله کی ذات پر یقین کے ساتھ ١٩٩٨ میں پرواز شروع ہوئی تھی پچھلے ٢٣ سالوں میں ٣٠٠٠ طالب العلموں کا مستقبل روشن کرکے ،١٥٨ گریجویٹس .پوسٹ گراجویٹس ،آرکٹیکٹ معاشرے کو عطا کر ادارہ سلور جبلی کی طرف روا دواں ہے
زکوہ کے اجتماعی نظام کی ،الله کے رسول کے زمانے میں شروعات ہوئی تھی اور خلفایے راشدین نے اس نظام کو تقویت عطا کی -الحمدوللہ مرکز فلاح نیرول نے اس نظام کی تجدید کی اور گزشتہ ٢٣ سالوں میں اسکول،کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے والے غریب یتیم طالب العلموں کی فی بھرنے کا براہے راست انتظام کیا گیا - نیرول کے مسلم غریب خاندانوں کا عرق ریزی سے سروے کیا گیا، طالب العلموں کی نشاندہی کی گی -انکے اسکول کالجوں میں مرکز کے اراکین نے ڈائریکٹ فی جمع کروائی کسی کو بھی ہاتھ میں رقم ادا نہیں کی گی ٢٣ سالوں کے بعد خوش آیند نتایج دیکھنے کو مل رہے ہیں مرکز فلاح نیرول کی مدد سے پڑھے لکھے نوجوانوں کی ایک فوج اپنے خاندان ،سماج ،ملک کے لئے تعمیری کاموں میں مدد کے لئے تیارہوگیہے ان میں انجینئرز بھی ہیں،کاروبار بھی کر رہے ہیں ،آرکٹیکٹ بھی ہیں ،ٹیچرس بھی ہیں ،ایم بی اے بھی ہیں
یہی جنوں ، یہی ایک خواب میرا ہے
وہاں چراغ جلادو جہاں اندھیرا ہے
سن ٢٠٠ میں احمد شیخ مرکزفلاح نیرول سے جڑا ٥٠٠ روپے کی تنخواہ پر ادارے کے کاموں میں ہاتھ بٹاتا،مرکز فلاح کا سہارا ملا تو احمد شیخ نے بی کام کیا ایم بی اے کیا اور اب برلا کمپنی میں سارے انڈیا میں کمپنی میں کام کرنے والے لوگوں کا ٹریننگ مینیجر ہے مرکز فلاح نے بھی اسکی قابلیت کو مد نظر رکھتے ہے اسے مرکز فلاح منیجنگ کمیٹی میں جیونٹ ٹریسریر کی پوسٹ سے نواز دیا
گل حسسں خان اچھے عہدے پر فایز تھے سن ٢٠٠ میں اچانک انتقال کر گئے تین اولادوں تصّور خان ،منّور خان اور اختر خان پرائمری اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے -مرکزفلاح نے اس خاندان کا بھرپور تا عون کیا اسکول سے کالج تک فی ادا کی آج تصّور خان پتھالوجی ڈپلوما حاصل کر صابو صد یق ہوسپٹل میں ٹیکنشین کا کام کر رہا ہے منّور خان بی ای مکینیکل انجینرنگ کرکے ریلوے میں انجنیئر ہیں اور اختر خان بی ای الیکٹرانک کی ڈگری حاصل کر بی ایسس این ال میں انجنیئر کی پوسٹ پر کام کر رہا ہے -تصّور خان مرکز فلاح کے کاموں لئے اپنا قیمتی وقت لگاتا ہے
باصت خان اور ارباز خان کے والد بھی بچپن میں فوت ہوگے تھے والدہ اسکول میں پیون کا کام کر مشکل سے گزر بسر کرتی تھی مرکز فلاح نیرول نے دونو ن بھاییوں کی سکول اور کالج کی فیس ادا کی ارباز خان بی کوم کی ڈگری ملا کر ایمیزون میں جاب کر رہا ہے باصت امیٹی یونیورسٹی سے ایروناٹک انجینرنگ میں بی ٹیک. آخری سال میں ہے کلاس میں ٹاپ کرتا ہیں
ارباز خان مرکزفلاح نیرول کے لئے ڈونر بن گیا ہے کتنی کہانیاں ہیں جو مرکز فلاح نیرول کی کوکھ سے جنمی ہیں ، نیرول کی تاریخ میں سنھرے حروف میں لکھی جاسکتی ہے
کاش ہندوستان میں اجتما ئی زکوہ کا نظام ہر شیر ہر گلی میں قایم ہوجاے ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ بدل جاےگی