रविवार, 16 जुलाई 2017

Belasis Road/yadein Maharashtra college ki


यूँ   तस्सवर पे बरसती हैं पुरानी यादेँ
जैसे बर्सात में रिमझिम का समां होता है
बेलसिस रोड मुंबई की एक मशहूर सड़क थी । मुंबई सेंट्रल से  स्टेशन शुरू होकर नागपाड़ा जंक्शन पर ख़त्म होजाती है। इस सड़क पर मुंबई सेंट्रल बस स्टेशन ,उस से आगे Arabia Hotel ,उस से लग कर मेहदी मस्जिद ,पड़ोस में अंजुमन गर्ल्स स्कूल ,थोड़े आगे महाराष्ट कॉलेज सामने सेंट अन्थोनी गर्ल्स स्कूल और उस के पड़ोस में Alexandre Theater ,सड़क के end में traffic signal और K eddy company का छोटा सा मेडिकल store हुवा करता था। पास ही Sarvi Restaurant . १९७५/१९७७ जिस समय मैं Maharashtra College में B.Sc कर रहा था Saint Anthony Girls School के पड़ोस में बड़े बड़े घोड़ों के अस्तबल हुवा करते थे। इंद्रा गाँधी का  central में राज था ,आज की तरह चीज़ें आसानी से नहीं मिला करती थी। सोना कपडा ,इलेक्ट्रॉनिक के सामान smuggle किये जाते थे। हाजी मस्तान ,युसूफ पटेल नामी ग्रामी smugglers थे। जगे की कीमत  उस समय भी थी। क़िस्सा मुख़्तसर इन घोड़ों के अस्तबल को भी खाली कराने की ,इन लोगों के माध्यम से कोशिश की गयी। अस्तबल में आग तक लगवाई गयी,घड़े ज़ख़्मी हुवे ,कई मरे भी । लेकिन वह  उस समय ,उसे खाली न कर पाये। आज उस जगह पर आलिशान city central mall की ईमारत कड़ी है। लोग कहते हैं भलाई की बुराई पर  हमेशा जीत होती है। यह मेरी समझ से परे है । आज भी पूरी सड़क कुछ कुछ तब्दीली के साथ वैसी है। मानो  फ्रेम में लगी हुवी पुरानी तस्वीर। saarvi restaurant आज भी उसी हालत में है ,बलिययाँ लकड़ी लगा कर टूटी फूटी इमारत को गिरने से बचाने की कोशिश की गयी है ,होटल अब भी धुएं से भरा रहता  है। खानों में अब वह मज़ा नहीं रहा ,हालांकि कीमत कई गुना बढ़ गयी है। Alexandra theater की इमारत अब भी उसी हालत में है ,बाहर फिल्म के पोस्टर नहीं लगे है। सड़क का नाम बदल कर Jehangir Boman Behram Marg कर दिया गया है। लेकिन Raj Oil Mill की building उसी जगह है। कुछ समय पहले तक राज मिल्स के बहार गोली सोडा मिलता था ,अब उस दुकान पर नहीं दिखा,महाराष्ट्र कॉलेज की लड़कियां अब भी उसी शौक से चने चटपटे,आलू ,दही भेल कहती दिखाई पड़ी, आदमी का नेचर कभी  नहीं बदलता । चेंज है लेकिन धीमा सा,जिस तरह thermos  में राखी चाय बहुत देर तक गर्म रहती है।



Belasis Road ممبیئ سنٹرل اسٹین سے شروع ہوکر  ناگپاڑا جنکشن پر ختم  ہوجاتا ہے شاید اس کی حد تھوڑے آگے بھی ہو-اس سڑک پر ممبیئ سنٹرل بس  اسٹیشن،اس سے آگے اربیا ہوٹل،مہدی مسجد،انجمن اسلام گرلس اسکول،پڑوس میں مہاراشٹر کالج،سامنے سینٹ  اینتھنی گرلس اسکول اور اس کے پڑوس میں الکزنڈر تھیٹر سڑک کااختتام keddy company چھوٹا سا میڈکل  اسٹور تھا-اسی کے سامنے ٹریفک سگنل پاس ہی میں ساروی ہوٹل-سینٹ اینتھنی  اسکول کے پڑوس میں بڑے بڑے گھوڑوں کے اصطبل ہوا کرتے- اصطبل خالی کرانے کے لیے کیئ بار ان میں آگ بھی لگایئ گیئ-زخمی گھوڑوں کو سڑک پر دوڑتے پھر دم توڑتے ہم نے ان گنہکار آنکھوں سے دیکھا ہے-حاجی مستان ،یوسف پٹیل کا عروج تھا جگہ خالی کرانے کے لیے  اسوقت بھی سپاری دی جاتی تھی- لیکن اسوقت کیئ بار کی کوششیں  بھی اصطبل  کی جگہ خالی کرانے  میں ناکا میاب رہی تھی-  1974/1977 کی بات ہے میں بی-ایس-سی فایئنل ایر میں تعلیم حاصل کر رہا تھا-مہاراشٹرا کالج میں منشی صاحب پرنسپل ہوا کرتے،ککشی وال وایئس  پرنسپل,پروفیسر جاوید خان -آیے دن کالج کے ہال میں مشاعرے ،ادبی نشستیں،بیت بازی کی محفلوں کی رونق ہوتی-کرشن چندر،خواجہ احمد عباس،فیض  احمد فیض ،خواجہ عبدل غفور،مجروح ان محفلوں کو رونق بخشتے-شام طنز مزہ میں کرشن چندر نے " عشق کرنے کے باون طریقے " پڑھ کر سنایا تھا ہمارے پیٹوں میں بل پڑھ گیے تھے-فیض احمد فیض کا دھویں کے کش چھوڑتے ہویے "رنگ پیرہن کا خشبو ں ذلف لہرانے کا نام-موسم گل ہے تمہارے بام پہ آنے کا نام " مشہور غزل سنانا بھولتے نہیں بھولتا-کالج ڈے میں  بلراج سہانی،جاوید اختر، امجد خان کی موجودگی چار چاند لگا دیتی تھی-امجد خان کا شعلے کے ڈایلگ کی پیرڈی "ارے او بسنتی ناگپاڑے کی چکی کا آٹا  کھاتی ہو کیا" سنایا تو محفل گل و گلزار ہو گیئ تھی-بیت بازی میں پڑھے گیے معیاری شعر اب تک یاد ہے-
      Alexandra theater میں اس زمانے  میں فحش  انگلش  فلمیں دکھانے کا رواج تھا-عریاں سے پوسٹر پر فلم کے ٹایٹل کا  اردو/ہندی ترجمہ جیسے " ایک لکا تو دوسرا مکا" "بندوک ساڑی میں بندیا گاڑی میں" ٹھیٹر کے سامنے جو کالج کے بالکل مقابل ہے لٹکا دیا جاتا -کان صاف کرنے والے،دھونی دینے والے قفیر،لچے ،لفنگے لوگوں کا اث دہام فلم دیکھنے ٹوٹ پڑتا-پرنسپل منشی نالاں ہوجاتے کیئ بار تھیٹر مینجمنٹ کو بول کر پوسٹر ہٹوایے بھی-کچھ شرافت اس زمانے میں باقی تھی-
    آج بت خانے سے آیئ تھی آواز  اذاں
17 فروری 2015 ایک عرصے بعد بلاسس روڈ پر جانے کا موقعہ ملا-40 سال بعد بھی اس زمانے کے کچھ آثار قدیمہ اب بھی باقی ہیں-مہارشٹر کالج،انجمن گرلس ہایئ اسکول،سینٹ اینتھنی گرلس اسکول،اربیا ہوٹل کچھ تبدیلی کے بعد اب بھی باقی ہے-ساروی ہوٹل اب بھی دھویں سے بھرا رہتا ہے لیکن سیخ کباب میں اب بھی وہی مزہ ہے فرق قیمت میں ہے 20 گنا بڑھ گیئ ہے-فٹ پاتھ اب بھی ٹوٹے پھوٹے ہیں لیکن پہلے سے بہتر-جگہ جگہ اب بھی پوسٹر لگے ہیں چہرے بدل گیے ہیں-بنات والا ،زیاوالدین بخاری کی جگہ  اتحادالمسلمین کے اویسی بھاییوں نے لے لی ہے-keddy company  کی جگہ دو منزلہ عمارت بن گیئ ہے-راج آیل مل اپنی جگہ موجود ہے-گولی سوڑا اب بھی دستیاب ہے 25 پیسے کی جگہ 5 روپیے میں-کھٹی میٹھی چاٹ،ابالے آلو اب بھی لڑکیاں اسی شوق سے کھارہی تھی-گھوڑوں کے اصطبل کی جگہ city mall بڑی بڑی عمارتوں نے لے لی ہے-
                  سب سے بڑا انقلاب  theatre  Alexandra کی بلڈنگ وہی ہے –رفیق دودھ والا کی سرپرستی میں " ادارہ دینی تعلیم " مدرسہ میں تبدیل ہو گیا ہے-ہندوستان کے کونے کونے اور کیئ بیرونی ممالک میں اس ادارے کی سرپرستی میں کامیاب مدرسے چلایے جا رہے ہیں-17 فروری 2015 کو اساتزا کی 3 روزہ ورک شاپ کا پہلا روز تھا- مولانا کو ٹایم مینجمنٹ پر مدلل تقریر سن کر میں دنگ رہ گیا-آج کے دور کی مسابقت کرنی ہو تو اسی ڈسپلن  سے  مدارس کو چلانا ہونگا-

Ghodon Ka astabal jhan badi badi immarten ban chuki hai
Inside Alexendra Theatre
Raj Oil Mill Belasis Rd
Keddy company new building
St.Anthony Girls School Belasis Rd







कोई टिप्पणी नहीं:

एक टिप्पणी भेजें