ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
26 July 2022
آج صبح فجر بعد مقیم وارثی صاھب کی نمازے جنازہ نیرول جامع مسجد میں ادا کی گی اور تدفین نیرول کے سیکٹر چار کے قبرستان میں عمل میں آیی -مرحوم ٩٠ سال کی عمر کو پہنچ گئے تھے -ایک مہینے قبل تک بھی کلپنا چاولہ گاردن میں دھیرے دھیرے چہل قدمی کرتے تھے میں ملاقات کر لیتا تھا -پرسوں ٢٥ جولائی دوپہر نصرت سے اکسا مسالہ کی دکان پی ملاقت ہویی کہنے لگی ابّا سے مل لی جئے حالت نازک ہے -میں شام عصر بعد انکے گھر پہنچا تمام بیٹیاں انہے گھیری بیٹھی تھی کویی زم زم پلا رہی تھی کویی آکسیجن بلڈ پریشر چیک کر رہی تھی (آکسیجن تو میٹر دکھا ہی نہیں رہا تھا ) کویی انکے سینے کی مالش کر رہی تھی -انکی اہلیہ بھی پریشان بیٹھی تھی- تھوڑی تھوڑی بعد سب پونچھ رہے تھے ابّا اب کیسا لگ رہا ہے -اوہ مشکل سے سانس لے پا رہے تھے شاید آخری وقت قریب آگیا تھا -مجھے پہچانا ہاتھ ملایا اور کہا "آپ کو خبر نہیں ملی بہت دیر کردی اپنے آنے میں -تمام بچیوں کی باپ سے محبت دیکھ کر آنکھ سے آنسو نکل پڑے اس زمانے میں بھی ایسے خاندان ہیں جہاں والدین کی اتنی قدر کی جاتی ہے حقیقت یہ ہے کے والدین کی تعلیم کا اثر ہی بچوں میں دکھایی دیتا ہے -سات بچکر پانچ پر میں اور قاسم بھائی جو وہاں موجود تھے مغرب نماز کے لئے نکل پڑے ٹتھوڈی دیر بعد ان کی روح قبض ہوگیی مجھے یقین ہے فرشتے ان ہی کے لفظوں میں "ایے حضور بیٹھے تخت پر کھائے کھجور " کہہ کر انکا استقبال کر رہے ہونگے -الله جنّت فردوس میں مرحوم کو جگہ عطا فرماے -آمین
1 april 2016
دل تو بچہ ہے جی
بات 85 سالہ بزرگ کی ہو رہی ہے-جس کی زات میں اب بھی ایک
چھوٹا بچہ دکھایئ دیتا ہے-کبھی کبھی وہ بزرگوں والی حرکتیں کرتے ہیں-اس عمر میں
بھی وہ اپنے گھر سے مسجد،پوسٹ آفس حتی کے
نیرول ویسٹ تک پیدل گھومتے دکھایئ پڑتے ہیں-اکژ اوقات یہ ہوتا ہے میں کار یا
اسکوٹر سے جا رہا ہوں دکھایئ دیے پوچھا مقیم صاحب کہاں کی تیاری ہے کہنے لگے بھاڑا
وصول کرنے سیکٹر 48 جا رہا ہوں پوچھا چھوڑ دو –فرمانے لگے میں چلا جاونگا ،ہاں
نہیں کرتے کار میں بیٹھ جاتے ہیں-اس مقام تک پہنچتے پہنچتے 15 منٹ لگ جاتے ہیں-میں
سوچ کر پریشان ہوجاتا ہوں پیدل وہ کب،کسطرح پہنچ پاتے-اس عمر میں اسکوٹر پر بیٹھ
کر بھی جوانوں کی طرح لطف لیتے ہیں-اتنی عمر ہونے کے باوجود ہم سب سے دوستانہ
تعلقات نبھاتے ہیں-ایک دن واکنگ کرتے کرتے پارسک ہل پر ملاقات ہو گیئ،میں دھیرے
دھیرے واک کر رہا تھا میرا ہاتھ پکڑ کر
کھینچ کر اوپر تک پہنچا دیا-ان کی ہاتھ کی پکڑ بہت مظبوط ہوتی ہے لوہے کی طرح سخت
ہاتھ ہیں-لیکن بات چیت لہجہ نرم شگفتہ دلنواز ہے-کھڑےکھڑے فجر کے بعد 15 شعروں کی
مشکل نظم بغیر رکے سنا کر ہم سب کو مہبوت کر دیتے ہیں-گھر میں ان کا بہت رعب ہے-ان
کی اہلیہ بھی بامحاورہ زبان بولنے کی عادی ہے-ان دونوں کی 64 سالہ رفاقت کے باوجود
رشتوں میں زرا بھی ماندگی نہیں آیئ
جس دن سے چلا ہوں میری منزل پہ نظر
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
غالبن 15 سال کی عمر میں انہوں نے اپنی پرکٹکل زندگی کا
آغاز کیا تھا-یوپی سے کلکتہ کے لیے نکل پڑے تھے-7 سال کلکتہ میں قیام کیا-انسان ہر
بات کا اندازا پنی زات سے مقابلہ کرکے کرتا ہے –میں نے ایک دن ان سے پوچھا مقیم
صاحب آپ کی شادی کب ہویئ تھی –کہنے لگے 1952 میں نے کہا میری پیدایش سے 2 سال پہلے—سمجھدار
ہے کہنے لگے تم 1954 میں پیدا ہویے تھے کیا؟ پھر وہ بنجاروں کی طرح بھٹکتے
رہے-کلکتہ سے دوگنا وقت یعنی 15 سال ممبیئ میں کام کیا-اور پھر کلکتہ سے تین گنا
کام سعودی میں کیا 23 سال-وہ تو اچھا ہوا غیر مقامی لوگوں کو سعودی کی شہریت نہیں
ملتی ورنہ سعودی میں مقیم ہونے کا انہوں نے تہیہ کر لیا تھا-پھر ہم سے ان کی
ملاقات کہاں ہوتی؟ غالبن 1992 سے وہ شفق منزل نیرول میں قیام پزیر ہے-یہ کہنا صحیح
ہوگا کے مقیم ہے-میں نے کہی ایک ریسرچ پڑھی
تھي کے جتنا بھی جس چیز کا استعمال کیا جایےوہ فٹ رہتی ہے-مقیم صاحب کی صحت
کا راز ان کا لگاتار چلنا ہے-دماغ اس لیے چکاچوند ہے کے اب بھی نیئ پراپرٹي کی
خریداریکی خریدوفروخت وہی کرتے ہیں-کمرے،دکانوں کرایا وصول کرنا،خالی کروانا،نیے
کرایاداروں کو رکھنا،پراپرٹی ٹیکس بھرنا انہیں کے زمہ ہے-یہاں تک کے گاوں کی مسجد
بھی ان کی محنتوں کا نتیجہ ہے-ممبیئ سے گاوں پہچنے کے لیے 35/36 کا طویل سفر ہے
لیکن یہ وقفہ وقفہ سے کبھی ٹرین سے کبھی فلایٹ سے اتنی عمر میں بھی چکر کاٹتے رہتے
ہیں-کیونکی گاوں کے ہر فنکشن میں ان کی موجودگی ضروی ہے-
نہ جانے میرے بعد ان پہ کیا گزری
میں زمانے میں چند
خواب چھوڑ آیا تھا
مقیم صاحب نے کھلی آنکھوں سے خواب دیکھے ہیں اور انہیں پورا
ہوتے ہویے دیکھا ہے-آج 85 سال کی طویل عمر پا
کر انہوں نے ماشااللہ اپنے پڑپوتے ،پڑ نواسے تک دیکھ لیےہیں-انہوں نے مجھے
بتایا کے تمام بیٹے،بیٹیاں،پوتے نواسے وغیرہ کی تعداد ملا کر 43 کا عددبنتا ہے-آج
بھی خاندان میں ان کی مرضی کے بغیر کویئ کام نہیں ہوتا-لوگوں کی دعوتیں کرنے کا
انہیں شوق ہے-سماجی اور مزہبی کاموں میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں-ان کا گھر
ہمیشہ مہمانوں سے بھرا ہوتا ہے-صبح کی نماز کو جب میں گھر سے نکلتا ہوں وگھنار کے
گیٹ پر مجھے دور سے دیکھ کر پہچان لیتے ہیں-یہ ان کی نظر کی تیزی ہے یا بقول شاعر
ان کا پیار
بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
اللہ سے دعاگو ہوں وہ اس طرح صحت مند رہے-ویسے بھی بااخلاق
لوگ لونگ الایچی کی طرح عنقا ہوتے جا رہے ہیں-وہ اپنے اخلاق محبت سے ہم سب کو
نوازتے رہے-ان کی دعوتوں ،تحفہ میں دیے ہویے خوشبوں اور ہاتھ سے بنی نقاشی کی ہویئ
چیزوں کا سلسلہ ایسے ہی جاری رہے- (مجھے ہاتھ بنی رحل تحفہ دیا تھا) اور ان کا ایک جملہ "آییے حضور کھایے کھجور
بیٹھے تخت پر کانوں میں گونجتا رہے-