सोमवार, 24 नवंबर 2014

titlee ke ta'qub me koi phool sa bacha


                                     تتلی کے تعقب میں کویئ پھول سا بچہ
کہا جاتا ہے ہر آدمی میں ایک چھوٹا بچا چھپا ہوتا ہے-لیکن حنا کے تعلق سے میں ثبوت کہ ساتھ کہے سکتا ہوں، کے ایک بچے میں بڑا انسان کبھی کبھی نظر آجاتا ہے-اب بھی  کھٹی میٹھی گولیاں،املی،چپس ، چیس بالس اس کی  پسندیدہ چیزیں ہیں-ممی سے چھیڑ چھاڑ،بیل بجانے پر دروازے کے پیچھے چھپ کر پپا کو چیخ مار کر ڈرا دینا-اپنے کمرے کے باہر اس نے، کمرے میں داخل ہونے کے اصولوں کی ایک طویل فہرست لگا رکھی ہے-کمرے میں زیادہ دیر رک نہیں سکتے،فضول باتوں سے گریز کیا جایے ،  کمرے          میں چیخ کر باتیں کرنے سے منایئ ہے-
              اپنے زاتی کپ برڈ پر زندگی گزارنے کے گولڈن اصولوں کی  تختی لگا رکھی ہے-دھیمے لہجے میں گفتگوکر ے،کھانا اعتدال سے کھایے،گہری سانسیں یے،خشنما کپڑے پہنے،بے خوف زندگی جیے،صبر سے کام لے،سوچ پوزیٹو رکھے،زندگی سے سیکھے،حلال رزق کمایے،ہمیشہ بچت کرے،خرچ ہوش مندی سے کرے-اور اس نے زندگی انہیں اصولوں پر بتانے کی حت الامکان کوشش بھی کی ہے-
            ع  تم یاد آیے ساتھ تمہارے گزرے زمانے یاد آیے
حنا کی پیدایش کی خبر مجھے شہادہ سے ہمارے سسر زین العابدین کے خط سے ملی تھی-وہ خط اور مضمون آج بھی میرے زہن میں محفوظ ہے-"تمہارے گھر ایک خوبصورت پھول سی بچی نے جنم لیا ہے"اور اس مضمون کا عنوان بھی یہی ہے-اس خوبصورت تندرست بچی کا بڑا سا سر تھاجس کے تمام بال ہم نے نکلوا دیے تھے-اس کی ایک تصویر نکلوایئ تھی جس میں وہ  گول مٹول ،صحت مند،کیلنڈر گرل سی نظر  آتی ہے-
جب وہ2 سال کی تھی ہم رو ہاوس سے سڈکو کے بنے بی ٹایپ میں منتقل ہو گیے-سامنے ایک بڑی بلڈنگ تعمیر ہو رہی تھی،لوگ کام کرتے حنا کہا کرتی "آدمی شانی ہوگیا"-سینما کے بڑے پردے کو وہ موٹا   ٹی-وی کہتی- پسینہ کو وہ     پشییمہ  کہا کرتی ،میں ڈیوٹی جاتا تو مجھے خدا مافز کہتی-پڑوس میں کرشچن لیڈی سے کچھ جملے سیکھ لیے تھے-تو کیا کرتی،تو کیا کھاتی وغیرہ وغیرہ-بچپن میں اس سے معصومانہ حرکتیں سرزد ہوجاتی تھی-اسے الحمد یاد کرایئ جارہی تھی –جب اسے پڑھایا گیا صراط 
المصتقیما   اس نے پڑھا سیتا فل قیما-ڈاکٹر واصف انکل نے اس سے پوچھا حنا تم دوپہر میں کیا کرتےہو،اس  نے کہا  "کھانا کھاتے  انار کھاتے نہالچہ بچھا کے سو جاتے"-نواپور میں ہماری دعوت تھی سلفچی کھانے کے بعد لایئ گیئ اس نے گندے پانی میں  ہاتھ ڈبو کے دھو لیے-اپنے فراکس کی پہچان کیئ   ناموں سے کر رکھی تھی  مجھے ایرپورٹ پہچانے  جوفراق پن کر آیئ تھی ایرپورٹ فراک  کا نام دیا،ایک فراک پر بہت سے فروٹ بنے تھے اسے فروٹ والا فراک کہتی-بچپن میں اتنی پیاری تھی کے راہ چلتا شخص اٹھا کے پیار کرنے لگتا-پرویز انکل نے اپنے پالٹری فارم کو  اسی کے نام  پر "حنا پالٹری فارم" سے منسوب کیا تھا-
       جس وقت وہ چار سال کی تھی مجھے سیریا میں جاب مل گیا-مجھے یاد ہے میری روانگی پر وہ پھوٹ پھوٹ کر رویئ تھی-کئ روز تک مجھے بھی یاد کیا تھا-سیریا  جاتے ہویے زندگی میں پہلی بار اتنا  طویل سفر کیا تھا-آیل فیلڈکی زندگی بڑی خشک ہوتی ہے-پھر پہلی بار گھر سے اتنی دوری ہویئ تھی – آج کا دور نہیں کے ایس ایم روانہ کر دیا،ای میل چیٹ ،ٹیلی فون بھی ہفتے میں ایک دفعہ کرنے کر ملتا-شگفتہ ،ثنا ،حنا کے خطوط میری مرجھایئ    زندگی کے  لیے  آب حیات  بن جاتے-اور حنا کے خطوط تو    "جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجایے " کے مانند ہوتے تھے-آج بھی ان خطو ط کو میں نے خزانے کی طرح سنبھال کر رکھے ہیں-مجھے ہندوستان میں اپنی غیر موجودگی کے دوران گزرے تمام واقعات،تہوار،گھر میں بنے کھانے ،باجی سے ہویے جھگڑے،ممی کی بیماری،نواپور کا سفر،پرویز انکل کے پولٹری فارم کی وزٹ،کی روداد ان، خطوط سے مل جاتی تھی-  باجی سے ناراضگی پر   ثنا ایس بیڈ گرل جملہ لکھا ہوتا -دیوالی،ہولی،عید،ولنٹایئن ڈے،یوم آزادی،گنیش چترتی،حتا کے ناگ پنچمی،کویئ ایسا تہوار نہ ہوتا ،حنا کے خطوط میں مجھے مبارکباد ضرور ملتی-مجھے وہ ہر خط میں یاد دلاتی مجھے ہندوستان کب لوٹنا ہے-اس کی بھدی سی ڈرایئنگ پر اس نے خود کامنٹ کیا ہوتا "مایئ ڈرایئنگ اس ویری بیڈ" لیکن میرے لیے وہ انمول تحفہ ہوتی-کرسمس ٹری،ٹرافک سگنل ،گنپتی،شواجی،پلین،تیڑی میڑی گرل،پلین ،کار،اداس کتا  ، آیسکریم کون کی تصاویر بنا کر مجھے روانہ کرتی-خط کے آخر میں ہر وقت ایک جملہ لکھا ہوتا"آی لو یو پپا" یا  "یو آر ویری گڈ پپا"یہ جملے میرے لیے  مانو "جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجایے "  ٹانک کا کام کر جاتے ہو-کبھی ان خطوط جو میرے دوستوں کے معرفت مجھے ملتے، وہ چٹر مٹر،چپس کے پیکٹس بھی روانہ کر دیتی-اور بچپن کی  یادیں تازہ ہو  جاتی-
  جب ٹیلی فون کی سہولت عام ہوگیئ –اور وہ  بڑی کلاس میں پہنچ گیئ تو  تو اس کے خطوط آنے کم ہو گیے ٹیلی فون پر اس سے زیادہ باتیں ہوتی-سن 2000 میں  نےسوڈان میں نیا جاب جاین کیا -ہم نے کمپیوٹر خرید لیا، وہ مجھے با قاعدگی سے میل روانہ کرتی-
نقطہ کے ہیر پھیر سے خدا جدا ہو گیا
اردو بولنے اور پڑھنے کا شوق اسے ہمیشہ رہا ہے-اب تو ماشا اللہ وہ بڑی روانی سے اردو پڑھ بھی لیتی ہے-بڑے مضحکہ خیز واقعات  بھی ہویے ہیں-شمسی صاحب کے بنگلہ پر تختی لگی ہے "کنج آفیت" یعنی آفتوں سے محفوظ گھر - حنا نے اسے " کنج آفت" بنا ڈالا-بڑے انکل جب بھی اس واقعہ کو یاد کرتے بہت ہسنتے-ایک دن مجھ سے کہنے لگی وہ شخص بہت مفلس ہے-کہنا چاہتی تھی مخلص-مجھ سے اکثر اردو سیکھنے کی کوشش کرتی رہتی ہے
      گریجوشن کے بعد اس نے M.B.A کر لیا-اس کی تعلیم پر بھی ہمیں مختصر رقم خرچ کرنی پڑی-وہ اپنی راہ اپنے آپ  بنانے کے اصول پر عمل پیرا ہے-ماشااللہ اپنے آپ   جاب تلاش کیا، ایک  دیڑھ سال مشہور کمپنی میں کام کرنے کے بعد والدین کی خواہش کے سامنے سرنگو ں کردیا-پچھلے ایک  دیڑھسال  سے وہ   شگفتہ اور میری  زندگی   کا اٹوٹ حصہ بن گیئ ہے-اس دوران اس نے اپنے وقت  کا بہترین استعمال کیا ہے-ممی  سے بہترین کھانے بنانے کا فن حاصل کر لیا ہے-پپا سے اردو سیکھ لی ہے-بروج،منہاج الاسلام سے   دین کی معلومات حاصل کر لی ہے-سینا پرونا سیکھ لیا ہے-سیکھنے سے زیادہ اس نے ہمیں سکھایا ہے-کمپیوٹر،قرآن کی معلومات،دینی مسایل  اس سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے-
     آج وہ دلہن بنی  اپنے خوابوں کی دنیا بسانے کے خیالوں میں گم ہے-وہ جہاں رہے گی انشااللہ اپنے گھر کو جنت نشان بنا دیگی-ڈسپلین اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے-محبت کے فن سے وہ واقف ہے،تبھی تو  دونوں بھانجیوں کو اس سے بے انتہا محبت ہے-ثنا اور حنا دونون   بہنیں تو ایک جان دو قالب ہے-ماں باپ کی آنکھوں کا تارا ہے-باجی تم جہاں رہو   خوش رہو-ہم تمہارے خطوط، تمہاری یادوں اورخوش آیند مستقبل کی خواہشوں کے سہارے زندگی کے باقی دن  ہنسی خوشی کاٹ دینگے-