बुधवार, 10 सितंबर 2014

taqreer

مرکز فلاح ادارۂ گزشتہ 14 سالوں سے نیئ بمبیئ نیرول میں پہلی تا پوسٹ گریجویشن اسکولی طالب علموں کی فیس ادا کرتا آرہا ہے-AGM  کے موقع پر کی گیئ میری راغب احمد کی  تقریر  

                               مرکز فلاح  AGM   کے لیے
نحمدہ ،نصلہ الا رسولہ الکریم اما بعد
   محترم صدر، معزز حاضرین اسلام علیکم
لوگ  نیئ ممبیئ اور بخاص نیرول کے تعلق سے ایک عجیب تصور لیے ہوے ہیں کے یہاں مسلم سماج کے کروڑ پتی، ارب پتی اور مالدار قیام پزیر ہیں-لیکن میں علی –ایم شمسی اور ان کے رفقا  جنہوں نے  مرکز فلاح کی بنیارد ڈالی، مرحوم صادق احمد،سید محمد عباس،فیروز چوگلے،ڈاکٹر فاروق الزماں،لایق مبارکباد سمجھتا ہوں کہ انہوں نے جس دور اندیشی کا مظاہرہ کیا –سن 2000 میں  کس  طرح ان گھروں کی تلاش کی  جہاں ظرورت مند رہتے ہیں-اور ایسے ظروت مند کے جن کے گھروں میں چٹایئ تک بھی میسر نہیں-بون کوڈا،نیرول گاوں، جھوپڑوں میں،چالوں میں،ٹوٹی پھوٹی ¾ منزلہ عمارتوں میں جہاں بغیر لفٹ کے پہنچنا جویے شیر لانے سے کم نہیں-اس بات کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب میں نے ہمارے سکیٹری جناب یوسف نشاندار،خازن رفیع شیخ ،اور تصور خان کے ساتھ مل کر   identified familiesکا resurvey  پچھلے سال مکمل کیا-تمام families   جو مدد لے رہی ہیں میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کی below poverty line زندگی گزار رہے ہیں- لیکن اکژ لوگوں کو اب تک گمان ہے کہ زکوات کی رقم لینا جایز نہہں ہے انہیں سمجھانا پڑا کے یہ ان کا حق ہے-اکژ لوگوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا  تھے کے یہ مدد انھیں مسجد سے مل رہی ہے ان کی غلط فہمی دور کرنا پڑی-الحمدوللہ سب سے  بڑی خوشی اس بات کی ہویئ کے 40 سے 50 ایسی families ملی جن کے بچے graduate,post graduate,nursing,Engineering  بن کر اپنے خاندان کو سپورٹ کر رہے ہیں-ایک ڈرایور ہیں جن کے دو بچے graduation کرچکے ہیں اور ایک بچہ multimedia کیا ہے-اور وہ بھی مرکز کی مدد سے-ایک غریب گھر کی بچی جس کے والد کولڈ اسٹوریج میں کام کرتے تھے B.E.Electronic ENG  کر اب جاب سے بھی لگ گیئ ہے-خاندان کی کفالت کر رہی ہے-کیئ ایسی مژالیں ہیں-اس سال الحمدوللہ 22 فیملیس کو ایڈ کیا گیا ہے-ایک فیملی کے تعلق سے بتا رہا ہوں وہ کہی abroadجاب کیا کرتے تھے-ہندوستارن لوٹ کر بزنس کیا نقصان اٹھایا-اپنے بڑے بچے جو فاینل ایر B.E میں تھا اسے پڑھانے کے لیے 2 بچے جو اسکول میں پڑھ رہے تھے ان کی تعلیم discontinue کرنا چاہتے تھے-الحمدوللہ مرکز فلاح کو اپروچ کیا ان کے تینوں بچوں کی فیس مرکز سے ادا کی جا رہی ہے-ایک صاحب کانٹرکٹر ہے مندی کی وجہ 2 کالج کے بچوں کی فیس کا انتضام نہ کر پایے اب مرکز ںدد سے بچوں کی تعلیم مکمل ہو پا رہی ہے-
  ہم اور ہماری ٹیم خوش قسمت ہیں کے ہمیں جناب  علی ایم شمسی کی رہبری نصیب ہویئ-ان کا admin ،discipline ان کی دور اندیشی ، اتنی صلاحیتیں بہت کم کسی شخص میں یک جاں ہوتی ہیں-ان کے تعلق سے اتنا ہی کہوں گا
اسے ابھی اپنی بلندی کا نہیں احساس
وہ آسماں ہے مگر زمیں پہ چلتا ہے-
   ان سے استدعا ہے کے ان کی دوسری کرم بھومی نیئ بمبیئ کی طرف بھی بمبیئ کی مصروفیتوں کے بعد زیادہ توجہ دے تا کے زیادہ سے زیادہ لوگ مصتفیز ہو پایے-

   میں بھی سوڈان سے لوٹنے کے بعد مرکز کے کاموں میں  تھوڑی حد تک involve  ہو گیا ہوں –اور مولانا ابو الحسن ندوی کے اس قول سے متفق ہوں اور محسوس کر رہا ہوں کے انسانی ہمدردی اور جزبہ خدمت کے بغیر سکون کی دولت حاصل نہیں ہوتی-