یادیں سیریا /دمشق کی
ہم جس دور میں شام/سیریا میں جاب کر رہے تھے (١٩٩٢-٢٠٠٠) حافظ الاسد اسلام کو سیریا سے رخصت کر رہے تھے
-پچھلے ١٥ سالوں سے ان کے فرزند باکمال بشار الاسد اپنے عوام کا جنازہ نکال رہے ہیں -لاکھوں بوڑھے ،جواں ،بچے اور عورتیں ملک بدر ہو ہو کر ہزاروں کلو میٹر دور ترکی ،فرانس ،جرمنی میں پناہ گزیں ہورہے ہیں یا سمندر میں ڈوب کر مر رہے ہیں -ملک کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے
جاب تو ہم ڈچ کمپنی شیل میں کر رہے تھے فرات ندی کے کنارے فیلڈ تھا شاید اسی لئے الفرات پیٹرولیم کمپنی کا نام تھا -عمر فیلڈ میں ہم لوگ کام کر رہے تھے -ابو کمال قصبہ فیلڈ سے ١٠ کلو میٹردوری پر تھا -یہ سیریا کا آخری قصبہ تھا یہاں سے عراق کی سرحد شروع ہوتی تھی - ترچھی پائپ لائن ڈال کر عراق کا کچا تیل آسانی سے چرایا جاتا تھا-عراق حکومت چشم پوشی کرتی ان کے ملک میں کچے تیل کی بہتات تھی اور صدام حسسیں جیسا دلدار حکمران تخت نشین تھا
٤ لاکھ بیرل کچا تیل زمین سے نکالا جارہا تھ ٥ فی صد سیرین حکومت کی رویالٹی ٢٥ فی صد حافظ الاسد کے سویز اکاونٹ میں باقی شیل کمپنی کے کھاتے میں .اس زمانے میں کچے تیل کے دام عالمی منڈی میں ١٣٥ ڈالر فی بیرل ہوا کرتے تھے ٤ لاکھ بیرل کچے تیل کی قیمت ،ایک دن کی ٥ کروڈ ٤٠ لاکھ ڈالر بنتی- تیل کے وہ کویں جہاں سے تیل پوری طرح نچوڈ لیا گیا تھا وہاں زمین کو دھسنے سے بچانے کے لئے ٢ لاکھ بیرل فرات ندی کا پانی پمپ کیا جاتا تھا -فرات پر کیا اثر ہوتا ہمارے رخصت ہونے تک فرات کے پانی میں کسی قسم کی کمی نہیں ہوئی تھی البتہ تیل کے ذخیرے ختم ہونے کو آگیے تھے
١٥٠ ہندوستانی فیلڈ پر جانفشانی سے ٣ کلومیٹر زمین کی تہوں سے ٤ لاکھ بیرل کچا تیل کمپنی کو مہییا کر رہے تھے سیریا پر امریکا کی پابندی لگی ہویی تھی کبھی کبھی مشین اور پرزے مہینوں دستیاب نہیں ہو پاتے لیکن ہندوستانی جگاڈ سے کام نکل جاتا فیلڈ پر شیل کی طرف سے لان ٹینس ،جم ،سوئمنگ پول ،تھیٹر کی سہولتیں دستیاب تھی لیکن ١٢ گھنٹے کی کڈ ی ڈیوٹی کے بعد تھک کر چور ہوجاتے -کمپنی کی طرف سے مفت کھانا ملتا کنٹین میں دنیا کے ہر ملک سے فروٹس چیز ،جام ،بٹر ،سلاد ،وافر مقدار میں دستیاب ہوتا اکواڈور کے کیلے ، جورڈن سیریا کے زیتون ،چیری ،خربوز ،تربوز اور ایران کے انار
فیلڈ پر ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد دھما چوکڈی مچتی "کر گیی شاہین کو زاغ کی صحبت خراب " شراب کی عادت گوروں سے مستعار لی ہے گورے تو آدھا پیگ پی کر فارغ ہو جاتے ہمارے ہندوستانی بھایئ جام پر جام لدھکاتے پھر گالی گلوچ مار پیٹ ،قے، دوسرے دن پتا ہی نہیں چلتا کچھ ہوا تھا -وطن گھر کی یادیں آجاتی کچھ لوگ جذباتی ہوجاتے -شکر تھا ہم ایک مہینے کے بعد چھٹی پروطن کمپنی کے خرچ پر جا سکتے تھے ایک مہینہ گھر پر بتا سکتے تھے
ہم سب ہی شد بد عربک جو سیریا کی زبان ہے سمجھ لیتے بول لیتے ہمارے قریبی دوست پردیپ گپتا جو کیی سال عراق میں کام کر چکے تھے اہل زبان کی طرح عربی بولتے تھے کلمہ جانتے تھے نماز پڑھنا جانتے تھے عراق میں محبوب سبحانی غوث ال اعظم دستگیر کے مزار پر بقول وہ فاتح بھی پڑھ آے تھے لیکن کبھی کبھی بڑے دلچسپ واقعات پیش آتے ایک دن گپتا جی نے لوکل کو بلا کر کہا کچھ روز بعد وطن روانگی ہے میرے لئے تین کلو زیتون سالم لے آنا دوسرے دن و ہ مقامی ان کے لئے تین کلو زیتون کا تیل لے آیا ایک دن ایک مقامی آدمی سے کہا میں کل تمہں صابن دونگا وہ لوکل دوسرے روز انکے لئے سستا والا ٥ کلو صابن لے
آیا میں نے گپتا جی سے کہا "ہم نے منگایی سرمہ دانی لے آیا ظالم بنارس کا زردہ " گپتا جی بہت دل کھول کر ہسسیں
آس پاس کے دیہاتوں سے مقامی لوگ کام کرنے آتے تھے ساتھ میں اپنا کھانا لاتے حکومت کی طرف سے خبز(نان) ١ سیرین ریال میں دس کلو ملتا وہ لوگ ساتھ لاتے ککڑی ٹماٹر متبل میں لپیٹ کر کھا لیتے -لیکن جب ہم ہندوستانیوں کی گھر پر دعوت کرتے تو دسترخوان فلافل ،یبرک ،کباب ،سیرین شاورما ،شیخ المحشی اور ملغوبہ سے آراستہ ہوتا -سیرنس تعلیمی نظام بہت ہی ناقص تھا پورے سیریا میں دو یونیورسٹیز تھی وہاں سے پڑھ کر اے انجینئرز اپنے آپ کو مہندس کہتے ان کی بڑی عزت بھی ہوتی ، لیکن قابلیت ہندوستانی اسکول کے طلبا کے درجے کی ہوتی تھی -ایک وجہ یہ بھی تھی کے نظام تعلیم عربی میں تھا
سیریا میں صرف دو موسم ہوتے ہیں اپریل سے سپتمبر سخت گرمی ٥٠ درجۓ حرارت تک گرمی کی شدّت پہنچ جاتی ہے ١٥ دنوں تک دھول بھرے طوفان (عربی میں ا جاج غبار کہتے ہیں) گھر دھول سے بھر جاتا ہے لوگ نکل نہیں پاتے -پھر اکتوبر سے مارچ تک شدّت کی سردی کبھی کبھی برف باری بھی ہوجاتی ہے کیی کیی روز تک ائیرپورٹ بند ہوجاتا ہے -
اس زمانے کا دمشق روایتی الف لیلوی شہر لگتا تھا .جگه جگه مرغ سیخ کباب کی ہوٹلیں ، چلغوزے ،بادام، پستے اور زیتون سے لدی دکانیں ، بازاروں میں چست گھردار سلور لمبے کرتے اور ترکی ٹوپی پہنے اور کچھ لوگ جبہ پہنے ہوۓ گھومتے -عورتیں کفتان پہنے سر پر رنگ برنگی سکارف لپیٹے نظر آتی - ہر طرف سے مرحبا سلام کی صدایں سنایی پڑتی -سراحی کندھے پر لیکر چھوٹے چھوٹے کپ ٹرےمیں اٹھاۓ روایتی لباس میں قہوہ بیچتے لوگ، مقامی لوگ دو گھونٹ قہوہ گھنٹوں چسکیاں لے لے کر پیتے -ہم نے بھی ایک گھونٹ قہوے کا پیا تھا ایک گھنٹے تک تھوکتے رہے تھے تب بھی زبان پر گھنٹوں کڑواہٹ باقی رہ گی تھی -اس کے بعد ہم نے کبھی بھی قہوہ پینے کی جرات نہیں کی
شہر کے اکثر علاقے فیشن زدہ تھے آفس سکول کالجز میں آدمی سوٹ میں ملبوس دکھایی دیتے عورتیں ٹائٹ جینس ،سکرٹ پہنے گھومتی -عورتیں آدمیوں کو سگار کا بہت شوقین پایا -عورتیں خوبصورت اتنی مانو کسی نے دودھ میں ڈبو کر نکال لیا ہو پھر بھی چہرے پر میک اپ کی تہیں جمی ہوتی -ہندوستان سے سب زیادہ فیئر اینڈ لولی ٹیوب کی برآمد ہوتی -میں نے کسی سیرین کو کبھی اخبار پڑھتے نہیں دیکھا نہ کسی کو ہاتھ میں اخبار لیجاتے دیکھا
مسجدیں نمازیوں سے خالی ہزاروں مسجدیں لیکن چند ہی براے نام نماز کے وقت کھولی جاتی-حکومت سے پیش امام موذن کی تنخواہ ادا ہوتی -امام بھی اپنی تنخواہ کا قرض جعم کی نماز کے خطبے میں حافظ الاسد کے لئے دعا کرکے ادا کر دیتے -اتفاق سے ایک دن رمضان کے مہینے میں مسجد استفنجدار میں مغرب کی نماز ادا کی سوچا تھا افطار بھی کر لینگے پتا چلا ہم تین نمازی مسجد میں موجود تھے ایک افریقن میں اور امام صاحب امام مسجد میں داخل ہوۓ ، اسٹینڈ سے جبہ اتار کر پہنا ،نماز میں داڑھی بھی چہرے پر نظر آیی نماز ختم ہوتے ہی جبہ اسٹینڈ پر لٹکایا اور چہرہ بھی کلین شیوں نظر آیا الله کیا ماجرا تھا - اسی مسجد کے احاطے میں جلیل القدر صحابی را وے حدیث حضرت ابودردا رضی الله کی قبر ہے فاتحہ پڑھی دعا میں اثر نہیں آیا پتا نہیں صاحب قبر ایسے ماحول سے تنگ آکر شاید جنّت چلے گئے ہو
دمشق شہر میں جگہ جگہ ٹھیلوں پر سگریٹ اور شراب کھلے عام دستیاب ہوا کرتی تھی شباب کے لئے روس سے خوبصورت لڑکیاں وہاں سے مختلف اشیا لا کر فروخت کرتی -کچھ روز دمشق میں رہ کر لوگوں م میں ایڈ س بانٹ کر رفو چکّر ہوجاتی اسے کہتے ہیں آم کے آم گٹھلیوں کے دام
فروری مہینے سے سیریا میں موسم بہار کی شروعات ہوتی باب الصغیر قبرستان جہاں جلیل القدر صحابی رسول بلال رضی الله ،عبد الله بن عمر رضی اللہ آرام فرما ہیں اس قبرستان میں مقامی لوگ خیمہ تان کر اپنے خاندان کے ساتھ جشن کا ماحول برپا کرتے تھے -کھانا چاۓ کے دور چلتے، یہ کونسی حدیث قرآن میں لکھا ہے لیکن ان گنہگار آنکھوں نے دیکھا ہے -
اسلام کی سب سے قدیم مسجد امیہ میں ممبر کی داہنی طرف پیغمبر یحییٰ علیہ ال سلام کی ٨ فٹ لمبی پتھر سے بنی قبر ہے -پاس ہی لکڈی کا کندہ ہے کہا جاتا ہے آپ یحییٰ علیہ سلام کو یہی شہید کیا گیا تھا ٹور ست جوتوں سمیت مسجد میں دندناتے پھرتے - ہمیں ننگے پاؤں دیکھا ہم شرمندہ ہوگئے -پتا چلا اسی مسجد کے مینار پر بیٹھ کر امام غزالی نے اپنی شہر آفاق کتاب احیا العلوم تخلیق کی تھی لیکن مقامی لوگوں کو ان باتوں سے کیا واسطہ -قریب ہی فاتح فلسطین صلاح الدّین ایوبی کا مزار ہے -وہاں پہنچے تو مزار سنسان پڑا تھا ہم ہندوستان میں صلا ح الدین ایوبی کے کار نامے پڑھ پڑھ کر جوان ہوے ہیں سینے پر گھونسا لگا سیرین حکومت کی طرف سے چاروں طرف جاسوس گھومتے رہتے کہیں فاتح صلاح الدین ایوبی کی سوانح سے لوگ عبرت حاصل کرکے حکومت کا تخت نہ الٹ دیں یا شاید صلا ح الدّین ایوبی کرد قبیلے سے تعلّق رکھتے تھے -
دختر امام حسسیں حضرت رقیہ حضرت زینب کے مزار پر ماتم کا سلسلہ لگاتار جاری ساری رہتا ہیں عورتیں چھاتی کوٹتی ہیں، بال نوچ کر بین کرتی ہیں -شیعہ ،بوری فرقہ کو حج کے بعد شام عراق اور مصرکا زیارتی سفرلازمی ہے
دمشق کی وہ سفید مسجد بھی دیکھی جس کے مینار سے قرب قیامت حضرت عیسا علیہ السلام کا نزول ہونا ہے بد قسمتی سے مسجد پر تالا لگا نظر آیا شاید حضرت عیسا علیہ ال سلام کے نزول کا انتظار ہے وه آکر مسجد کا تالا کھولے
فیلڈ سے دمشق لوٹتے ہوے حمص شہر سے گزرتے سیف الاسلام حضرت خالد بن ولید کے مزار پر حاضری دینے کا فاتحہ پڑھنے کا شرف حاصل ہوا -عالیشان مسجد مزار بھی خوبصورت ہے -دیہاتوں کے لوگوں میں سادگی ہیں اور مذہب سے دلچسپی بھی پآیی -راستے میں پلمیرا(تدمر ) میں یونانی طرز کے کھنڈرات بھی دیکھنے کو ملتے -ٹورسٹ لوگ دور دور سے ان کھنڈرات کی زیارت کو آتے -
٣١ دسمبر ١٩٩٩ کی شام ہماری رات کی ڈیوٹی تھی پردیپ گپتا نے میرے روم کا دروازہ کھٹکھٹایا کہنے لگے راغب بیسوی صدی کا اختتام ہورہا ہے چلو صدی کے آخری سورج کو غروب ہوتا دیکھ لیتے ہیں -ریگستان خاموشی تپتے سرخ گولے
کو ہم دونوں دوست آخری وقت تک دم توڑتے دیکھتے رہیں آج بھی آنکھیں وہ منظر نہیں بھول پاتی -اس کے بعد ایسا اتفاق ہوا سیریا کو الوداع کہنا پڑا ٢١ سال کا طویل وقفہ ہوا ، نا سیریا جانا ہوا نہ پردیپ سے کویی کونٹکٹ ہو پایا -٩ سال کا طویل دور سیریا میں پلوں میں گزرگیا -سوڈان میں نیے جاب سپروائزر پوسٹ کے لئے بلاوا آگیا -
وقت رکتا نہیں کہی ٹک کر
اس کی عادت بھی آدمی سی ہے
راغب احمد شیخ ،،نیرول
نوی ممبئی
٩٨٩٢٣٦٩٢٣٣