रविवार, 22 जून 2014

Azeem Fankar Gulzar

                                         عظیم فنکار گلزار
گلزار ایک موٹر مکینک سے اسسٹنت ڈایرکٹر ،پھر نغمہ نگار،مکالمہ نویس اور ہدایت کار بنے اور ہر پروفیشن میں اپنا نقش چھوڑاشروعات بندنی فلم میں لکھے ایک گیت "مورا گورا انگ لی لے" سے ہویئ-اس گیت کی کامیابی سے گلزار کو کیئ فلمہوں کے آفر ملنے لگے-گلزار نے فلموں کے مکالمے بھی لکھنے شروع کر دئے-آشرواد،آنند،نمک حرام جیسی فلمہوں کے مکالمے انہوں نے لکھے-اور 1973 میں "میرے اپنے"سے ہدایت کاری بھی شروع کر دی-اور ہر بار ایک مختلف موضوع پر فلم بنایئ،وہ چاہے آندھی ہو یا کوشش۔یا ماچس ہو یا "ہو تو تو"ہرکسی بھی فلم میں انہوں نے اپنی الگ راہ بنایئ-انہیں فلم فیر،نیشنل ایوارڈ،کے علاوہ  پدم بھوشن اور ایکڈمی ایوارڈ اور  گریمی اوارڈ جیسے بین الاقوامی اوارڈس، اعزازات بھی انہیں حاصل ہوےء –حال ہئ میں انھیں ہندوستان کے سب سے بڑے فلمی ایوارڈ "دادا صاحب پھالکے اوارڈ" سے بھی نوازا گیا-
  ان کا مجموعے کلام "جانم"عام فہم اور سلیس زبان میں لکھا گیا ہے-ان میں غیر طرحی نظمیں شامل کی گیئ ہے-ان کی ایک نظم بطور مثال پیش کر رہا ہوں
پہلے پہلے افق کے کھلنے سے
میں نے اپنی نماز کہہ لی تھی
تیری گودی کی تھنڈی مسجد میں
شام ہوتے پھر قریب آکر
تیرے چہرے کو لے کے ہاتوں میں
تیرے ہونٹوں کو چوم کر جانم
روزہ کھولا تیرے نمازی نے
  گلزارصاحب کی فلمیں خوبصورت افسانے ہیں-فلم دیکھتے دیکھے جزباتی طور پر آدمی اتنا محو ہوجاتا ہے کہ انکے کرداروں کے ساتھ ہنستا ہے، روتا ہے،انہیں کے بیچ سانس لیتے محسوس ہوتا ہے-آندھی،کوشش،اچانک بھلاے نہیں بھولتی-کتاب کا بھولا بھالا سا راجو،بچپن کی بھولی شرارتوں کی یادیں تازہ کر دیتا ہے-آنند میں دم توڑتے ہوئےآخری لمحات میں بابو مشایے نظم پڑھ کر موت کا نقشہ کھینچ دیتا ہے-
موت تو ایک کویتا ہے
مجھسے ایک کویتا کا وعدہ ہے ملے گی مجھ کو
ڈوبتی نبض میں جب درد کو نیند آنے لگے
زرد سا چہرہ لےء چاند افق تک پہنچے
نہ اندھیرہ،  نہ اجالا، نہ ابھی رات، نہ دن
جسم جب ختم ہو اور روح کو سانس آجایے
 آندھی میں وہ جزباتی نازک رشتے،موسم کی طوائف،میرے اپنے کی بوڑھی نانی،جو اپنی محبت اور اپنائیت سے سب کا دل جیت لیتی ہے-اچانک میں بیوی کو اٹوٹ چاہنے والے شوہر کی ،بیوی کی بے وفایئ  سے  زخم خوردہ ہوکر ٹوٹنا،اور مرزا غالب سیریل بنا کر غالب کے کردار کو زندہ کر دیا-
  گلزار کے فلمی نغمے بھی خوبصورت شاعری ہی ہے-خاموشی میں آوازیں سننے کا فن،مہکتی آنکھوں کی خشبو،عشق کو روح سے محسوس کرنا،سایوں کا سانس لینا،گھر آندھی،دیوتا،اور انگنت نغمے دل کو چھو  لیتے ہیں-نئےزمانے کی نبض پر بھی ان کا ہاتھ ہے-تبھی تو بیڑی جلای لو ،جئے ہو،ابن بطوطہ بغل میں جوتا ،جیسے بے مثال نغمے ان کے قلم سے نکلتے ہیں-